امریکی صدارتی انتخابات کا سایہ

241

یہ روایت تو نہیں‘ تاہم اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہر امریکی صدر طے شدہ امور انجام دے کر ہی رخصت ہوتا ہے‘ یہ طے شدہ امور کیا ہیں اور ان سے متعلق فیصلہ کون کرتا ہے‘ سادہ لفظوں میں بات کی جائے تو عام رائے یہی ہوگی کہ سارے فیصلے سی آئی اے کرتی ہے‘ کرتی ہوگی‘ ہر ملک کی انتظامیہ اور اس قومی سلامتی کے ادارے اپنے قومی مفاد میں وہ سب کچھ کرتے ہیں‘ جنہیں وہ درست سمجھتے ہیں‘ اگر یہی اصول ہے اور یہ دنیا بھر میں تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو پھر پاکستان میں حکومت اور قومی سلامتی سے متعلق ہمارے تمام ادارے بھی وہ تمام کام کرنے میں حق بجانب ہیں جنہیں ہم اپنے قومی مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی کچھ اصول بنارکھے ہیں کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کتنے ایسے ملک ہیں جو اقوام متحدہ کے اس اصول کی پاس داری کرتے ہیں‘ اس خطے ہی کا جائزہ لیں‘ ہمیں بھارت نظر آتا ہے‘ کیا وہ اس خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی‘ خود مختاری اور آزادی کے لیے خطرہ نہیں؟ بالکل ہے‘ اور کیا اسے امریکا کی سرپرستی نہیں مل رہی؟ بالکل مل رہی ہے‘ اگر یہی سچ ہے تو پھر اقوام متحدہ کہاں ہے؟
سری نگر میں آزادی کی تحریک وہاں کے عوام نے شروع کر رکھی ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے‘ بھارت کی کشمیری عوام کا غاصب ہے‘ دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری‘ ستر سال سے اپنے مطالبے کے حق میں جدوجہد کر رہے ہیں‘ جانیں قربان کر رہے ہیں‘ وہاں بھارت کے ہاتھوں اربوں روپے کی املاک تباہ ہوچکی ہیں‘ بھارت تین بار پاکستان پر جنگ مسلط کر چکا ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے‘ اقوام عالم سو رہی ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب بھی اس وقت سر پر ہیں‘ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوں یا نہیں‘ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا‘ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ افغانستان سے‘ دکھاوے کی حد تک ہی سہی‘ باہر نکل رہا ہے‘ لیکن ابھی افغانستان کی آزادی‘ سلامتی اور خود مختاری سوالیہ نشان ہے‘ یہ صورت حال پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر‘ سماجی حالات اور معیشت اس دبائو کے باعث پریشان کن صورت حال کا شکار ہیں ہم چاہتے ہیں کہ کابل اپنے پائوں پر خود کھڑا ہوجائے‘ اپنے مسائل خود حل کرے‘ جہاں اسے بیرونی دنیا کی مدد درکار ہو اسے یہ مدد اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ملنی چاہیے‘ لیکن کیا کیجیے کہ واشنگٹن ابھی تک کچھ واضح لائن نہیں لے سکا‘ اسے یہاں سے نکل جانا چاہیے‘ مگر وہ تو یہاں بھارت کو اپنا قائم مقام بنانے پر تلا ہوا نظر آرہا ہے‘ چاہتا ہے کہ مودی سرکار جس طرح دہلی میں کام کر رہی ہے اسی طرح کابل میں بھی کام کرے اگر یہی امریکا کا قومی مفاد ہے تو پھر ہمیں بھی حق ہے کہ ہم وہ سب کچھ کریں جو ہمارا مفاد ہے تاکہ ہم کابل میں بھارت کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں سری نگر میں کیا ہو رہا ہے یہی کہ ہندو غنڈوں کی دہشت ہے اور دوسری جانب نہتی کشمیری قوم‘ اس کی آواز میں درد بھی ہے اور سوز بھی۔
دہلی میں مودی حکومت کا منظور کردہ شہریت بل موثر طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے یہ بل سب سے بڑی اقلیت (مسلمانوں) سے شہریت چھینے کا ہتھیار ہے یہاں کا نظام انصاف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے آئینی حقوق سے محرومی اور سزائیں روز مرہ کا معمول ہیں اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں حوصلہ افزائی کے سوا کچھ نہیں ہو رہا مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا‘ یہ امریکی صدر کا پہلا دورہ تھا لیکن امریکی صدر کے خاندانی کاروباری مفادات بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔ مغرب میں اپنے بزنس کی ناکامی کے بعد ٹرمپ فیملی نے بھارت کا رخ کیا ہے دورے کا تعلق امریکا میں ہونے والے انتخابات سے ہے کہ وہاں 40لاکھ ہندو ووٹر ر ریپبلکن پارٹی کو ووٹ دیں یہ ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایوان صدر میں داخلے کا راستہ آسان بنا سکتے ہیں، بھارت کے ساتھ ٹرمپ فیملی کا رشتہ 1.50ارب ڈالر کا ہے جس سے مزید کئی ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ بھارت میں ٹرمپ فیملی نے پانچ بڑے منصوبے شروع کیے جن میں سے چار لگژری اپارٹمنٹس کی اسکیمیں ہیں ٹرمپ فیملی نے اپنے بزنس کی دیکھ بھال کے لیے انڈین لائسنس یافتہ بزنس مینوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے مغربی میڈیا کہتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھارت میں کئی بزنسز میں حصہ لے چکے ہیں بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کے مطابق امریکی صدر کی فیملی بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی اور اچھی سرمایہ کاری لے کر آئی۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں ٹرمپ فیملی کو اس بزنس سے 30لاکھ ڈالر کی رائلٹی ملی تھی۔