کورونا وائرس اور حفاظتی تدابیر

402

کورونا وائرس کے پھیلتے ہوئے عالمی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے بالآخر اس موذی مرض کو وباء قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو خبردارکیا ہے کہ اگر اس خطرناک مرض کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ عالمی وباء کی اصطلاح دراصل کسی بھی ایسی متعدی بیماری کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس میں مختلف ممالک میں ایک کثیر تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر بیمار پڑ رہے ہوں۔ طبی ماہرین کے مطابق عالمی وباء عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہو، لوگوں کو آرام سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں موثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو، نیا کورونا وائرس تقریباً ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا نہ توفی الوقت کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ایسی ویکسین موجود ہے جو اس کی روک تھام میںممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہے۔ کورونا وائرس بظاہر چاہے جتنا ہی خطرناک ہو لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر اس کے حوالے سے بعض حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں تو اس سے بچائو ممکن ہے۔ کورونا وائرس سے بچائو کے حوالے سے وزارت صحت کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ اپنے ہاتھ بار بار دھونا اور چھینک آنے کی صورت میں اپنا منہ اور ناک ڈھانپنا انتہائی ضروری ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کورونا جانور سے پھیلنے والا وائرس ہے جو انسان میں داخل ہو کر دوسرے انسان کو باآسانی منتقل ہوتا ہے، بخار، جسمانی ٹمپریچر بڑھ جانا، کھانسی، تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات اس مہلک مرض کی نمایاں علامات ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کا فی الوقت کوئی علاج موجود نہیں ہے، تاہم احتیاط کے ذریعے اس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں شہریوں کو وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ماسک کا استعمال کرناچاہیے، ہاتھوں کو اچھی طرح دھونے اور کھانستے اور چھینکتے وقت ٹشو پیپر کے استعمال سے بھی اس وائرس کی روک تھام میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ٹشو پیپر نہ ہو تو رومال کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے البتہ آنکھوں، ناک اور منہ کو بار بار چھونے سے گریز کرناچاہیے۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت اب تک کورونا وائرس کے لیے عالمی وباء کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزکرتا رہا ہے مگر اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ اب یہ اصطلاح (عالمی وباء) اس لیے استعمال کر رہا ہے کیونکہ وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی خطرناک حد تک کمی پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اس کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اب تک 114 ممالک میں کورونا وائرس کے 118000 مصدقہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق انفلوئنزا یا فلو کی وجہ سے ہر سال تقریباً 30 سے 50 لاکھ کے قریب انسان شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں جن میں سے دو لاکھ 90 ہزار سے لے کر چھ لاکھ 50 ہزار تک سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ امریکا کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریویٹشن سینٹر کے مطابق 2019 سے لے کر 2020 کے فلو کے سیزن میں اب تک 18 ہزار سے 46 ہزار کے درمیان فلو سے جڑی اموات ہوئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کو ایک نامعلوم خطرے کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر کورونا وائرس سے اموات کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں زیادہ تر چینی شہری شامل ہیں۔ تاہم تازہ اعداد و شمار کے مطابق چین کی نسبت دیگر ممالک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں نو گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین کے بعد اس وائرس کے سب سے زیادہ مریض جنوبی کوریا میں ہیں جہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد پانچ ہزارسے تجاوز کر چکی ہے جب کہ یہاں اس موذی مرض سے 22 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کے برعکس ایران میں متاثرہ افراد کی تعداد ڈھائی ہزارکے لگ بھگ ہے اور ہونے والی اموات کی تعداد 77 بتائی جا رہی ہے۔ ایران کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض اٹلی میں ہیں جن کی تعداد دو ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور اب تک اس وائرس سے وہاں 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
وفاقی وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں کورونا سے اب تک انیس تصدیق شدہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ ایک امریکی تحقیقاتی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا 83 سے لے کر 98 فی صد افراد کو بخارکی شکایت ہوتی ہے، 76 سے 82 فی صد کو خشک کھانسی آتی ہے اور 11 سے 44 فی صد کو تھکن اور پٹھوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں، اس کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہمیں خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس کی کوئی ویکسین سامنے نہیں آئی لیکن اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس سے ہلاک ہونے والے 21.9فی صد افراد کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے جبکہ نو سال سے کم عمر کسی ایک بچے کی بھی موت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ خطرہ ان افراد کو ہے جو پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا ان کی عمر زیادہ ہے اس لیے کسی خوف وہراس کا شکار ہونے کے بجائے ہمیں اس خطرناک مرض کا مقابلہ بہتر حفاظتی تدابیر اختیار کر نے کی صورت میں کرنا چاہیے۔