’’متاثرین حج و عمرہ، ایک مارچ اس لیے بھی‘‘

501

راشد منان
وزارت مذہبی امور نے سرکاری اسکیم کے تحت 86 ہزار 765 کامیاب درخواست گزاروں کا اعلان کر دیا ہے رواں سال سرکاری اور پرائیویٹ اسکیموں کے تحت ایک لاکھ 79 ہزار 210 پاکستانی فریضہ حج ادا کریں گے سرکاری اسکیم کے تحت ایک لاکھ 49 ہزار 295 عازمین کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں ایک لاکھ 5 ہزار 413 درخواست گزاروں کی قرعہ اندازی ہو گی،سرکاری اعلان کے مطابق 3 سال سے ناکام رہنے والے تقریباً سات ہزار اور 70 سال سے زاید عمر کے دس ہزار افراد اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی ایک بری تعدادکو بھی اس سال سفر حج کا موقع دیا جائے گا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس قرعہ اندازی میں کامیاب ہوئے اور جو امسال خانہ کعبہ کا طواف اور روضہ رسول کی زیارت کریں گے اور جو آج اپنے گھروں میں اپنے عزیز رشتہ دار دوست کی مبارکبادیاں وصول کر رہے ہیں۔
حج دین اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ مسلمان اس کی پوری آگاہی رکھتے ہیں البتہ حج سے متعلق قرآن پاک کی کئی آیتوں سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ نمبر ا۔ حج صاحب استطاعت کے لیے فرض ہے۔ ۲۔ متولین کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اس گھر کو طواف ’اعتکاف‘ رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے ہمیشہ پاک صاف رکھیں، ۳۔ یہ کہ بلد الامین (امن کا شہر) کو دو جلیل القدر نبیوں کی دعائوں کے نتیجے میں امن اور خوشحالی عطا کی گئی۔ ۴۔ متولین کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ زائرین کو اذن عام دیں یعنی وہ تمام تر سہولتیں فراہم کریں جو ان کے آسان حج کا باعث بن سکے۔ ۵۔ تعمیر کعبہ کا مقصد سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی مکمل پاسداری کی جائے۔
مندرجہ بالا تذکیر کی روشنی میں دیگر اسلامی ممالک کے قائدے اور قانون پر ہم اس لیے بات نہیں کرسکتے کہ ہمارا ان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مگر چونکہ یہ تحریر پاکستانیوں کے لیے ہے اور پاکستان اور سعودی عرب دونوں حج کے معاملات کے براہ راست فریق ہیں ایک کا تعلق قرآنی آیات کی روشنی میں متولین کا جبکہ دوسرا کا تعلق عازمین کا ہے متولین کو حکم دیا گیا کہ وہ عازمین کے لیے خانہ خدا کو طواف اور اعتکاف کے لیے پاک صاف رکھیں حج کی عام منادی کریں اور زائرین کو امن اور رزق کے خوف سے بالا تر ہوکر ہر طرح کی آسانیاں فراہم کریں جبکہ عازمین حج کے لیے استطاعت اور زاد راہ کو لازم قرار دیا گیا جس کا مطلب سادہ زبان میں مناسک حج کی ادائیگی ہے نہ کہ آرام دہ سفر اور پر تعیش آسائش جس پر آج کے حج و عمرہ کا پورا زور ہے۔ آرام دہ ہوائی سفر سے لے کر عام اصطلاح میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کی رہائش جس نے سفر حج کو اب امراء اور روسا تک محدود کر دیا ہے اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ حج بیت اللہ عام آدمی کے بس سے باہر ہو چلا ہے۔
ایک اہم بات قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد کی گئی کہ ’’جب حج و عمرہ کی نیت کرو تو پھر اسے پورا کرو بصورت دیگر اس کا کفارہ قربانی یا روزے کی صورت میں پیش کرو‘‘۔ (بقرہ: 196) یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ حکم صرف بدامنی سے متعلق نہیں اس کا اطلاق عام حالات سے بھی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ تمام ترمشکلات اور مہنگائی کے باوجود ہر کس و ناکس حج کے سفر کی نیت کے بعد ہی اس سفر کی درخواست ملکی قوانین کے مطابق متعلقہ اداروں کو دیتا ہے جن میں سے بیش تر کی درخواستیں کبھی قرعہ اندازی اور کبھی کسی اور وجہ سے مسترد ہو جاتی ہیں جن میں ان کی نیت یا ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا سارے معاملات کا مرکز و محور ہر دو جانب کے ملکی قوانین اور ان کی مجبوریاں ہوتی ہیں پھر کیا فرماتے ہیں مفتی دین وشرح متین بیچ اس مسئلے کے ایسی صورت میں کفارہ کا اطلاق کس پر ہو؟
میری تحریر تو قرآنی آیات کے اس حصے سے ہے جن میں عازمین حج کو اذن عام اور سہولتیں فراہم کرنا ہے جس کی زیادہ تر ذمے داری متولین کعبہ یا عصر حاضر میں خادمین حرمین و شریفین سے ہے جنہیں اس ضمن میں آسانیاں پیدا کرنا ہے نہ کہ حج و عمرہ کے مذہبی سفر بلکہ ارکان اسلام کے ایک اہم رکن کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جبکہ دوسری طرف ہماری حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے باشندوں کو سستا اور سہولت بھرا سفر حج ممکن بنائے اس ضمن میں ایک طرف تو تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ خادمین حرمین شریفین سے گزارش کریں کہ وہ کم از کم حج و عمرہ کو تجارت اور کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں اور یہ کہ چونکہ مکہ مدینہ تمام مسلمانوں کا ہے لہٰذا حج وعمرہ کی مد سے ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ ان ممالک کے عازمین و زائرین کے لیے مختص کریں جن کے لیے سفر حج و عمرہ ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ و مذہبی امور اس طرف سوچیں اور توجہ دیں۔ رہی ہماری بات تو حکومت وقت کو چاہیے کہ سفر حج کی سبسڈی کو فی الفور بحال کرے کیونکہ عقوبت خانے ہوں یا لنگر خانے شیلٹر ہوم ہو کہ احساس یا کفالت پروگرام کامیاب جوان پروگرام ہو یاصحت، صفائی، سیاحت ہو یا ثقافت یا اس طرح کے دیگر منصوبے بہر حال حج و عمرہ پر دی جانے والی رعایت ان سب پر زیادہ مقدم ہے مذکورہ تمام پروگراموں پر خرچ کیے جانے والے زر کثیر کا حجم حج پر دی جانے والی سبسڈی سے کہیں زیادہ ہے اور یہ کہ یہ تمام پروگرام پورے سال کے لیے ہیں جبکہ حج کا معاملہ سال میں صرف ایک بار کا ہے۔
اس تاثر کو ضائع کرنا بھی نام نہاد مدنی ریاست کے حکمران کی ذمے داری ہے کہ کرتار پور راہداری ہو کہ گرو نانک کا جنم استھان، ہندووں کی دیوالی ہو یا مسیحی برادری کا کرسمس سب سے بڑھ کر منکران ختم نبوت قادیانیوں کے لیے لامحدود رعایتیں اور مسلمانوں کے اہم رکن کی ادائیگی میں اپنی پھٹی جیب کو ٹٹولنا اور خالی خزانے کا بہانہ کر کے اس قرآنی آیت کی غلط توجیح کرنا کہ حج صرف صاحب استطاعت لوگوں کے لیے ہے جبکہ ہر حکومت حج سے تقریباً پانچ ماہ قبل حج درخواست فارم کے ساتھ ہی سفر حج کا مکمل خرچہ یکمشت پیشگی جمع کر لیتی ہے اور اب تو وزارت مذہبی امور کے سو کالڈ مفتی و وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اس بات کو تسلیم بھی کرچکے ہیں کہ حکومت اس رقم پر ملک میں مروجہ بینکنگ قانون کے مطابق منافع یا با الفاظ دیگرسود بھی حاصل کرتی ہے لہٰذا کچھ سوچنا چاہیے ہمارے مفتیان دین وشرح متین کو بیچ اس مسئلے کے بھی۔ آخر میں مدنی ریاست کے حکمران، وزرا اور مشیران کو میری یہ تجویز ہے کہ اگر وہ کچھ نہیں کر سکتے اور عقل و خرد سے بالکل ہی عاری ہیں تو وہ اتنا تو ضرور کریں کہ سفر حج کی تمام رقم یکمشت لینے کے بجائے مجموعی رقم کی وصولی ہائوسنگ اسکیم والوں کی طرح اقساط میں لے لیا کریں یعنی کچھ درخواست کے ساتھ، کچھ قرعہ اندازی میں نام کے اعلان کے چند دنوں کے اندر کچھ اس کے ایک ماہ بعد، کچھ ائر لائن کی بکنگ کے وقت اور کچھ سفر حج کے آغاز کے بالکل ساتھ وغیرہ تاکہ عازمین حج اسے سہولت کے ساتھ ادا کر دیا کریں۔ سفر حج کے اخراجات کم کرنے کا ایک طریقہ سفر کے دورانیہ کو کم کرکے بھی کیا جا سکتا ہے یعنی چالیس دنوں کے بجائے 21 یا 25 دن۔ آخری بات جو نیت حج سے متعلق تھی اس کا حل پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی طرز پر کر دیا جائے اس کے لیے تمام سال حج درخواستیں وصول کی جائیں کوٹے کے مطابق جو رواں سال نہ جا سکیں انہیں آئندہ سال کے لیے نامزد کر دیا جائے شفافیت کے لیے درخوست گزار کو ان کا نمبر شمار بتا دیا جائے یہ اور اس طرح کی بہتر منصوبہ بندی اس اہم فریضہ کی ادائیگی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکتی ہے۔ خدارا کچھ تو سیکھیں کہیں سے بھی۔