ایف اے ٹی ایف کی دھمکیاں

277

فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری رکھا ہوا ہے ۔فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس نے پھرپاکستان کو فرمائشوں کی ایک فہرست تھمادی ہے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے دی ہے کہ اگر ان فرمائشوں پر ٹاسک فورس کی مرضی کے مطابق عملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ کردیا جائے گا ۔ ایک بات تو طے ہے کہ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں کوئی بھی فیصلہ میرٹ کے مطابق نہیں کیا جاتا ۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کے اب تک جتنے بھی فیصلے پاکستان کے حوالے سے سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب یکطرفہ اور سیاسی ہیں ۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں جو بھی فیصلہ پاکستان کے خلاف کیا جاتا ہے ، اسے سراسر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کہا جاسکتا ہے ۔ ٹاسک فورس میں پاکستان کے دوست ممالک میں چین ، ترکی اور ملائیشیا شامل تھے ۔ ملائیشیا میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نہیں معلوم کہ نئی حکومت اب بھی اسی طرح پاکستان کا ساتھ دے گی یا نہیں جس طرح سے ڈاکٹر مہاتیر محمد کی حکومت پاکستان کی مددگار تھی ۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں سب سے زیادہ اثر والا ملک امریکا ہے جس کے اثر میں سعودی عرب جیسے سارے ہی ملک ہیں ۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ پاکستان تو امریکا کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کرتا ہے مگر امریکا سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ جواب میں اُسے بھی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی دلدل سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرے ۔ اسے عمران خان نیازی کی نادانی کہا جائے ، نااہلی قرار دیا جائے یا پھر عالمی طاقتوں کی غلامی قرار دیا جائے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں ایک بھی فیصلہ کروانے میں ناکام رہے ہیں ۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور وہ فیصلے میرٹ پر کرتی ہیں تو دوسری جانب میرٹ کے بجائے امریکا کی فرمائش پر سزائیں سنائی جائیں ۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا امریکا کے لیے اہم ترین ہے اور پاکستان کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ امریکا کو جتادے کہ اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے تو اسے بھی پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا ۔ اس وقت پوری دنیا کو کورونا کے بخار میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ایسے میں اگر پاکستان فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کے تمام مطالبات پورے بھی کردے تو یہی کہا جائے گا کہ ابھی دنیا کورونا میں مصروف ہے ، اس لیے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے پر بعد میں غور کیا جائے گا اور یوں پاکستان پھر سے گرے لسٹ میں اٹکا رہے گا ۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان نیازی ایک مرتبہ ہی امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرلیں کہ اگر امریکا کو اس خطے میں اپنے مفادات عزیز ہیں تو پاکستان کو بھی اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ اب بات جی حضوری کی نہیں ہوگی بلکہ برابری کی بنیاد پر ہوگی ۔ اسی طرح اب واضح طور پر مقبوشہ کشمیر کی بھی بات کرلینی چاہیے ۔ عمران خان نیازی کی یہ کون سی ادا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی شہ رگ کے قبضے پر بالکل خاموش ہیں ۔ ایک دفعہ بھی انہوں نے یا ان کی ٹیم کے کسی رکن نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کی بات نہیں کی ہے ۔ ہر مرتبہ وہ یہی بات کہتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم ختم کرے۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ اگر ان کے نکتہ نظر کو کشمیری مان لیں تو وہاں پر ازخود ہی معاملات مودی کی مرضی کے مطابق حل ہوجائیں گے کہ مودی چاہتا ہی یہ ہے کہ کشمیری مجاہدین پاکستان کا نام لینا ترک کردیں ۔ عمران خان نیازی کی پالیسیوں کو دیکھ کر ضرور یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کے وزیر اعظم ہیں یا رضا باقر کی طرح عالمی اداروں کے حاضر سروس ملازم ہیں ۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کا مقدمہ بطور پاکستانی لڑ سکے ۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو پاکستان کے مفاد کے مطابق معاشی پالیسیاں تشکیل دے سکے اور ایک ایسے وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو محب وطن اور اہل وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو اپنی کابینہ میں شامل کرسکے ۔ عمران خان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی شہرت یو ٹرن کی ہے اور اس پر وہ شرمسار بھی نہیں ہیں۔ یوں ان کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ روز وہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوںکی حفاظت کرتے ہیں مگر روز ہی پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں پامال ہوتی ہیں لیکن عمران خان نیازی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔