کورونا وائرس: برطانیہ کی سب سے الگ حکمت عملی

967

برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو منفرد حکمت عملی اختیار کی ہے اس پر ساری دنیا حیران ہے اور خود برطانیہ کے بہت سے سائنس دان اس پر نکتہ چیں ہیں۔ بورس جانسن کی حکومت نے وائرس کی روک تھام کے لیے فوری ہنگامی اقدامات کرنے اور بڑے پیمانے پر وائرس کے متاثرین کا سراغ لگانے کے لیے ان کا ٹیسٹ کرنے اور ان کا اسپتالوں میں علاج کرنے کے بجائے ستر سال سے زیادہ عمر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اگر بیمار ہوں تو وہ کم سے کم چار ماہ تک اپنے گھروں میں رہیں تاکہ وہ اس وائرس سے بچ سکیں۔ وزیر صحت کا کہنا ہے کہ صورت حال دوسری عالم گیر جنگ ایسی ہے جب برطانیہ کے شہروں پر تابڑ توڑ بمباری ہورہی تھی اور ہمارے معمر لوگ اپنے گھروں میں محصور تھے۔ حکومت نے فوری طور پر اسکولوں، تعلیمی اداروں، ہوٹلوں، ریستورانوں، شراب خانوں اور سرحددں کو بند کرنے کے بجائے، سرکاری سائنس دانوں کے مشورہ پر ’’Herd Immunisation‘‘ کی حکمت عملی پر زور دیا ہے۔ دوسرے معنوں میں اگر ملک کی ساٹھ فی صد آبادی اس وائرس سے متاثر ہوگی تو اس وائرس کا مزید پھیلاو رک جائے گا اور اس وائرس کے بلند ترین مقام تک پہنچنے تک متاثرین کی تعداد کم ہو جائے گی اور اس وقت تک اسپتالوں میں متاثرین کے علاج کے لیے انتظامات کیے جا سکیں گے۔
بہت سے سائنس دان اس حکمت عملی کو کٹھور اور روسی رولٹ کے انداز کا جوا قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوریا سے لے کر یورپ تک سب ملکوں میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ اور جو دوسرے اقدامات کیے ہیں وہ بہت کار آمد ثابت ہوئے ہیں اور ان کے برعکس دوسرے اقدامات کو موثر اور یقینی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا بھی کہنا ہے کہ متاثرین کے ٹیسٹ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
برطانوی حکومت کی منفرد حکمت عملی کے نتیجہ میں پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 708 تھی جو سنیچر کو 1140 تک پہنچ گئی۔
سائنس دان اعتراف کرتے ہیں کہ 23جنوری کو ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے فوراً بعد چین نے ووہان اور دوسرے شہروں کو بند کرنے کے جو اقدامات کیے تھے ان کی وجہ سے دنیا کے دوسرے ملکوں کو اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے وقت ملا تھا۔
برطانوی حکومت کی دنیا سے الگ حکمت عملی کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سرکاری سائنس دانوں کے نزدیک کورونا وائرس اتنا مہلک وائرس نہیں جتنا کہ 2003 میں پھیلنے والا SARS تھا جو کورونا وائرس ہی کی قسم کا وائرس تھا۔ سارس وائرس کی ہلاکتوں کی شرح دس فی صد تھی جب کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح صرف دو سے چار فی صد ہے۔ سارس وائرس بھی چین سے شروع ہوا تھا۔ اس وائرس سے برطانیہ میں صرف چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابھی تک کورونا وائرس سے بچاو کا ٹیکہ تیار نہیں ہو سکا ہے اور عام رائے ہے کہ ٹیکے کی تیاری میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ اس وقت دنیا بھر کی 35کمپنیاں اور یونیورسٹیوں میں ریسرچ کے شعبے کورونا وائرس Covid.19 کے بچائو کا ٹیکا تیار کرنے کی کوششیںکر رہے ہیں۔ بوسٹن امریکا کی کمپنی موڈیرنا کو توقع ہے کہ ٹیکے کے پہلی آزمائش اپریل میں ممکن ہو سکے گی۔
برطانیہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے عوام میں ایسا خوف اور ہیجان پھیلا ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر ٹوائلٹ پیپرس تک کی جنونی خریداری شروع کر دی ہے نتیجہ یہ کہ اسٹورز کے شیلف خالی ہوگئے ہیں اس کی وجہ سے اسٹورز کو اشیا کی فراہمی کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے اسٹورز نے اشیا کی راشنگ شروع کر دی ہے۔ یہ راشنگ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔ اس صورت حال میں ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے حکومت نے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ جس سنگین معاشی بحران میں گرفتار ہونے جا رہا ہے اور معاشرہ میں جو انتشار خیز تبدیلیاںرو نما ہونے جارہی ہیں یہ ان کی تمہید ہے۔