محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کی کراچی آمد کو بڑی اہمیت دی جاری تھی جس میں وزیراعظم کو کراچی کے منصوبوں کا افتتاح کرنا تھا یہ دورہ موسم کی خرابی کے باعث منسوخ کر دیا گیا جبکہ مخالفین اس دورے کی منسوخی کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ بہر حال حقائق چھپائے نہیں چھپتے ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے دورۂ کراچی کی منسوخی کی اصل وجہ ان کی اپنی جماعت کے اندار ٹوٹ پھوٹ اختلافات ہیں جو ایک حقیقت ہے گورنر عمران اسماعیل جن منصوبوں کا افتتاح کر رہے تھے تو اسی دوران دو ایم پی اے فوٹو سیشن پر جھگڑ پڑے ساتھ ہی گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے ایک بانی رہنماء بھی تحریک انصاف سے علٰیحدگی کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گورنر سندھ بنے کے لیے بھی نامزد ہوئے مگر خان صاحب کی جانب سے عمران اسماعیل کو گورنر سندھ نامزد کر دیا گیا۔ کوئی دو رائے نہیں رہی کہ تحریک انصاف سندھ اقتدار کی جنگ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس شہر کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایم این اے حضرات اپنے اُن حلقوں سے مفرور ہیں جو اس وقت مسائل کا گڑھ بنے ہوئے ہیں پانی، بجلی گیس، کچرے کے ڈھیرے ان علاقوں کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی زد میں ہے جس پر ارباب اختیار کی غیر سنجیدگی سب کے سامنے عیاں ہے تعلیمی اداروں کو بند کر کے کھیل کے میدان سجائے جار ہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ کھیل تفریحی کے تمام تر مقامات کو اپنے عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔
یہ ہمارے ارباب اختیار کی وہ غیر سنجیدہ مفادات کی سیاست ہے جس نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ اس ملک و قوم کو دلدل میں دھکیل دیا
ہے۔ آج نعرہ لگایا جارہا ہے کہ مہنگائی پر ہم نے قابو پالیا ہے خدارا اس قوم کو بے وقف بنا کر دھوکا دینے کی سیاست کو اب دفن کیا جائے، کیا ماضی کی حکومتوں نے ٹماٹر کی قیمت کو تین سو روپے پر پہنچایا تھا آلو پیاز آٹا چینی کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ نواز شریف کے کہنے پر کیا گیا تھا جو پٹرول ماضی میں 87 روپے لیٹر تھا اُس کو 116 روپے لیٹر کرنے کی سفارش میاں صاحب نے کی تھی۔ روزمرہ کی تمام تر چیزوں پر 2018 کے بعد اضافہ کیا گیا جس کو معاشی بحران سے جوڑا گیا معیشت کو آئی سی یو میں رکھا گیا اور آج جب معیشت درست حالت میں گامزن ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو حکومت مہنگائی میں مصنوعی کمی کا اعلان کر رہی ہے اگر واقعی تبدیلی آگئی ہے مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے تو جو پٹرول ماضی کی حکومت میں 87 روپے لیٹر تھا وہ آج 80 روپے لیٹر ہونا چاہے تھا ایسی طرح روز مرہ کی چیزوں میں بھی کمی آنی چاہے تھی 2018 میں بنے والی حکومت نے پہلے قیمتوں کو بڑھا کر عوام پر بوجھ ڈالا پھر آج اُن میں معمولی کمی پیدا کرنے کو مہنگائی پر قابو پانے کا نام دیا جارہا ہے واقعی یہ انوکھی تبدیلی ہے۔
ساتھ ہی اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں رہا اگر حکومت نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے تو اپوزیشن نے تو
غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اپوزیشن لیڈر بھائی کی بیماری کی آڑ میں لندن کی ٹھنڈی فضائوں میں ٹوپیاں تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں اور پاکستان کے مسائل زدہ عوام کو ٹوپی د ی جا رہی ہے ساتھ ہی سندھ کی جاگیردار جماعت پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری اسلامی معاشرے میں بے حیائی کے نعرے بلند کرنے والی خواتین کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں ساتھ ہی سندھ جو اس وقت کورونا وائرس کی زد میں آتا جارہا ہے اب تک 16 افراد میں تصدیق ہوچکی ہے مگر بلاول صاحب اقتدار پر براجمان ہونے کی خواہش لیے پنجاب کو فتح کرنے کے محاذ پر سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح کراچی کے مسائل پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والی مختصر سی ایم کیو ایم کراچی کے مسائل پر دوغلی سیاست کرتی نظر آرہی ہے۔ حکومت کا حصہ بھی ہے اور حکومت کی کار کردگی سے مطمین بھی نہیں ہے سب سے پہلے تو یہ کہ گزشتہ دنوں گورنر نے جن منصوبوں کا افتتاح کیا وہ ماضی کی حکومت کے منصوبے تھے۔ جن پر اپنی تختی سجائی جارہی ہے۔ دوسری اہم بات ایم کیو ایم کی موجود قیادت کہ لیے یہ ایک لمحہ فکر تھا کہ جن عوامی منصوبوں کا افتتاح میئر کراچی کے ہاتھوں ہونا چاہے تھا اُن منصوبوں کا افتتاح وفاق کا نمائند کر رہا تھا جس کی تائید خود گورنر نے کی کہ یہ منصوبے وفاق کی جانب سے مکمل کیے گئے ہیں میئر کراچی کو صرف فوٹو سیشن کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک معاشی سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ ناگہانی آفت کورونا وائرس کی زد میں ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام تر اداروں کو سنجیدگی کا مظاہر کرنے کی اشد ضرورت ہے ساتھ ہی مہنگائی پر قابو پانے کا حکومتی دعویٰ بے بنیاد ہے ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو نہیں پایا گیا بلکہ 2018 کے بعد بڑھی قیمتوں میں تھوڑی کمی لائی گئی ہے تاکہ عوام کچھ ریلیف فراہم کر سکیں کیوں رمضان المبارک کی آمد قریب ہے جس میں قیمتوں کو یقینا بڑھایا جائے گا اور یہ ظاہر کیا جائے گا کہ ملک کو وقتی معاشی بحران کا سامنا ہے اس لیے تھوڑی مہنگائی کی گئی ہے اور اگر مہنگائی سے متعلق ہمارے خدشات غلط ہیں تو حکومت کو یہ ثابت کر کے دکھانا ہوگا کہ 2018 سے پہلے کی مہنگائی میں مزید کمی لائی گئی ہے ماضی میں پٹرول 87 روپے لیٹر تھا اور اس وقت پانچ روپے کمی کے بعد پٹرول 112 روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے جبکہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کو سامنے رکھا جائے تو پٹرول اگر 80 روپے لیٹر بھی فروخت کیا جائے تو حکومت کو بہترین منافع حاصل ہوسکتا ہے۔ محترم وزیر اعظم بقول آپ کے اگر ماضی کے حکمران چور ڈاکو تھے غریب کے حق پر ڈاکے مارتے تھے تو وہ روایت اس وقت بھی قائم ہے کوئی آٹے چینی کا بحران پیدا کر کے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو کوئی پٹرول، گیس، بجلی کا بحران پیدا کر کے مال بنا رہا ہے اور ان کے ذمے دار آپ کی کابینہ آپ کے اتحاد میں آپ کی جماعت میں کثرت سے موجود ہیں جن کا احتساب آپ کی ذمہ داری ہونی چاہے تھی۔ ساتھ ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اس وقت اپوزیشن کہاں ہے شہباز شریف اپنے بھائی کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے تو لندن میں مقیم ہیں مگر اُس قوم کو لاحق خطرات کا کیا کیا جائے جن کی بدولت شہباز شریف تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور میاں صاحب تین بار اس ملک وقوم کے وزیر اعظم منتخب ہوئے خدارا اگر واقعی آپ قومی لیڈر ہیں تو اپنے ذاتی مفادات سے ہٹ کر اس قوم کی زندگیوں کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔