ریاست کے ستونوںکو مضبوط کیا جائے

463

لاہور ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ اور صحافت ریاست کے بنیادی ستون ہیں انہیں ہلانے نہیں دیں گے۔ عدالت نے یہ ریمارکس جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے حوالے سے سماعت کے دوران دیے۔ عدالت نے کہا کہ نیب احتساب کرے مگر قانون کے مطابق۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹر انچیف کو اس لیے گرفتار کیا ہے کہ ان کا اخبار اور چینل حکومت پر تنقید کرتا ہے۔ وزیراعظم ہوں یا عام آدمی عدالتیں قانون کے مطابق چلیں گی۔ عدالت جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف سے متعلق جو بھی فیصلہ کرے گی توقع ہے کہ وہ قانون کے مطابق ہی ہوگا۔ لیکن جج کے ریمارکس میں ایک اور بات چھپی ہوئی ہے، معاملہ اخبار کے مالک کا ہے تو عدلیہ کہاں سے آگئی۔ کیا عدلیہ پر بھی دبائو ہے۔ اسے کون ہلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پوری قوم کی دعا ہے کہ عدلیہ حق اور انصاف پر جم جائے کوئی ہلانے کی کوشش کرے تو اسے ہلا ڈالے۔ لیکن اب تک تو قوم کا اعتماد عدلیہ پر اس طرح مضبوط نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ اس کا کوئی ایک سبب نہیں لیکن عدلیہ کی جانب سے عدلیہ اور صحافت کو ہلانے کی بات دل ہلانے کے لیے کافی ہے۔ عدلیہ تو بہت طاقتور ہے اس کے ججوں کا لکھا قانون بن جاتا ہے اور صحافت بہت طاقتور ہونے کے باوجود اب اس قدر بے وزن اور بے توقیر ہوگئی ہے کہ اس کے لکھے ہوئے الفاظ صدا بصحرا ثابت ہوتے ہیں۔ صحافت کو بے توقیر کرنے کا عمل حکومتیں اور خود میڈیا اداروں کے مالکان کرتے ہیں۔ اگر یہی حکومتیں اور مالکان صحافت کی درست آبیاری کریں تو دونوں کو فائدہ ہوگا۔ جب حکمران اپوزیشن میں ہوں گے تو ان کی طاقت یہی صحافت ہوگی اور اگر صحافت مضبوط، صحافی خوشحال اور روزی روزگار کے غموں سے آزاد ہوگا تو میر شکیل الرحمن کی گرفتاری جیسے حالات میں یہی صحافت ان کی نگہبان بنے گی۔ لیکن ایسا تو نہیں ہوتا۔ حکومتیں اپنی مرضی کی خبروں اور اپنی مرضی کی دنیا دکھانے کے لیے میڈیا کو مجبور کرتی اور اس کے لیے اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں تو میڈیا اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ اشتہارات بھی اپنی مرضی کے لیے استعمال کیے گئے اور جو اشتہارات دیے جا چکے تھے ان کے واجبات بھی روک لیے گئے۔ یہ مالکان کون سا صحافت کو مشن سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس پر اپنے کارکنوں کی تنخواہیں دبا لیں۔ ادارے بند کردیے، ہزاروں کی تعداد میں صحافی پورے ملک میں بیروزگار کر دیے گئے۔ اس کو عالمی حالات کا نتیجہ قرار نہ دیا جائے۔ یہ ساری خرابی حکومتوں اور میڈیا مالکان کی اپنی کمائی ہے۔ البتہ عدلیہ کو ہلانے کی کوشش سخت قابل غور اور توجہ ہے اگر ایسی کوئی کوشش ہو رہی ہے تو عدالت اس کا سخت نوٹس لے۔ قوم کو اعتماد میں لے اور ایسی کوشش کو ناکام بنائے۔ صحافت کو بھی مالکان کے جبر سے آزاد کرائے تاکہ یہ چوتھا ستون کسی نازک مرحلے پر عدلیہ کی مدد کے لیے کھڑا ہو۔ آج کی صورت حال جنگ گروپ اور میر شکیل الرحمن کو بھی یہ سبق دے رہی ہے کہ اگر اپنے کارکنوں کو خوش رکھا ہوتا تو ان کے حق میں مہم زیادہ زوردار ہوتی۔ اس وقت تو صحافی تقسیم ہیں کہ آیا یہ ہمارا مسئلہ ہے بھی یا نہیں۔ ہماری تنخواہیں اور ملازمین تو مالکان ہی کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ یہ ساری باتیں اخباری مالکان کے سوچنے کی بھی ہیں۔ صدر مملکت نے الگ بات کردی ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ میڈیا ریاست کی تعمیر میں کردار موثر طریقے سے ادا کرے۔ صدر مملکت یہ کہہ کر خود تو چین چلے گئے لیکن یہ تو بتائیں کہ میڈیا موثر کردار ادا کس طرح کرے… اس کی آواز حکومت نے دبا دی ہے۔ اس سے پہلے صدر صاحب یہ بھی بتا دیں کہ وہ میڈیا کس کو کہتے ہیں، مالکان کو یا عامل صحافی کو؟ میڈیا کی اصل طاقت تو عامل صحافی ہوتے ہیں۔ ان کو بے موت مارنے کی کوششیں ان کی حکومت کر رہی ہے پھر میڈیا موثر کردار کیسے ادا کرے گا۔ جو کچھ گزشتہ 18 ماہ میں صرف میڈیا کے ساتھ ہوا ہے وہ حکومت کے عزائم یا اہلیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ کاغذ مہنگا کیا گیا، متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔ اخبارات پر دبائو کے لیے اشتہارات کو استعمال کیا، اربوں روپے کے واجبات ہڑپ کر لیے۔ بدنام اور بلیک لسٹ اداروں کے ذریعے اشتہارات جاری کرائے نتیجتاً اخباری دنیا بھی بحران میں آگئی۔ عدالتیں اب ریمارکس سے بڑھ کر میڈیا کو طاقتور بنائیں۔ ان کو بھی فائدہ ہوگا۔