کورونا سے بچائو، تدبر کا فقدان

363

یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں کورونا کا مرض درآمد شدہ ہے ۔ سب سے زیادہ مریض ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کا بہترین طریقہ ہی یہ تھا کہ ایران سے آنے والے افراد کو ائرپورٹ پر یا سرحد پر ہی قرنطینہ کردیا جاتا اور جب تک وہ کلیئر نہ ہو جاتے انہیں عام آدمیوں میں گھلنے ملنے کی اجازت نہ دی جاتی ۔ اس کے برخلاف پاکستان میں عجیب و غریب کام یہ کیا گیا کہ حکومت میں شامل دو وزراء نے تفتان کے راستے ایران سے آنے والے زائرین کو ملک میں براہ راست داخل کیا ۔ اب کہا جارہا ہے کہ ان افراد کا کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور انہیں قرنطینہ میں رکھا جائے گا ، اب تک تو جو تقصان ہونا تھا ، ہو چکا ہوگا ۔ اسی طرح جن افراد کو تفتان میں واقع قرنطینہ کیمپ میں رکھا گیا ، ان کی بھی صورتحال بہتر نہیں تھی ۔ سارے افراد مل جل کر بیٹھے رہتے تھے ، ان میں سے ایک بھی آئسولیشن میں نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ کورونا کا شکار نہیں تھے ، وہ بھی اس کا شکار ہوگئے ۔ یہ تو وفاقی حکومت کا معاملہ ہے ، بداحتیاطی میں سندھ حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ سندھ حکومت نے ایران سے آنے والے زائرین کے لیے سکھر میں قرنطینہ کیمپ قائم کیا ہے ۔ وہاں کے جو بھی وڈیو کلپ سامنے آئے ہیں ، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکھر میں بھی صورتحال خوش کن نہیں ہے ۔ سکھر میں مقیم افراد کو جس طرح سے رکھا گیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی مقیم افراد میں یہ وائرس محدود رکھنے کے بجائے اس کے پھیلاؤ کا سبب ہی بن رہا ہے ۔ حکومت سندھ کے معاملات بھی عجیب و غریب ہیں ۔ معاملات کو تدبر سے نمٹانے کے بجائے ہر وہ قدم اٹھایا گیا جس سے صوبے میں زبردست خوف و ہراس پھیلے ۔ سید مراد علی شاہ نے جو اقدامات کیے ہیں ، ان کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ بجائے اس کے کہ سید مراد علی شاہ اس سے کچھ سبق حاصل کرتے ،انہوںنے پنجاب پر الزام تراشی شروع کردی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کورونا وائرس کے مریضوں کو ظاہر نہیں کیا جارہا ہے اور اس کے نیتجے میں پنجاب میں زبردست تباہی پھیلے گی ۔ سید مراد علی شاہ نے شکوہ کیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر اسکول بندکیے تو لوگ سی ویو جانے لگے ۔ مگر وہ یہ تو بتائیں کہ سی ویو جانے والے کتنے افراد میں کورونا وائرس پھیلا ۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ صورتحال ایسی ہے نہیں جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ شادی ہالوں پر پابندی عایدکردی گئی جس کے بعد لوگوں نے مجبور ہو کر ریستورانوںمیں ضیافت کا اہتمام کرلیا ۔ پولیس کے مطابق ریستورانوں میں ویسے تو لوگوں کے جمع ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر شادی والے آئیں گے تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا اور پیر کو پولیس نے کیا بھی ایسا ہی ۔ حکومت سندھ کے اقدامات دیکھ کر یہ پتا نہیں چل رہا کہ سید مراد علی شاہ سندھ کے مفاد کے لیے کام کررہے ہیں یا کسی اور کے مفاد کے لیے ۔ انہوں نے ہفتہ واری بچت بازاروں پر پابندی ، شادی ہالوں میں پروگراموں پر پابندی ، ریستورانوں پر پابندی ، شاپنگ مالز پر پابندی، بازاروں کے کھلنے پر پابندی جیسے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں ، ان سے عام فرد شدید متاثر ہوا ہے ۔ اب سید مراد علی شاہ بتائیں کہ جو لوگ روز کماتے اور کھاتے ہیں ، وہ اب کیا کریں ۔لوگ کورونا سے متاثر ہوں یا نہ ہوں، سید مرادعلی شاہ کے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں بھوک اور مفلوک الحالی سے ضرور مر جائیں گے ۔ بہتر ہوگا کہ سید مراد علی شاہ عوام کے مفاد میں فیصلے کریں ۔ دوسری طرف عمران خان کے پاس ایک ہی نسخہ ہے کہ گھبرانا نہیں۔