کورونا کی وبا ملکوں ملکوں پھیل رہی ہے جدید ترین سائنسی آلات، علاج معالجے کے باوجود کورونا سرحدیں عبور کر رہا ہے‘ شہر کے شہر قرنطینہ بن رہے ہیں‘ لوگ مقید ہورہے ہیں‘ امیرجنسی نافذ ہورہی ہے‘ دوسری جانب کالم لکھے جارہے ہیں کہ شکیل کو گرفتار کیوں کیا؟ ایک ہی کالم میں ہفتہ بھر کے موضوعات پر بحث کی جاتی ہے‘ کیسا وقت ہے کہ ایک ہی کالم میں تعزیت بھی ہورہی ہے اور اسی کالم میں مبارک باد بھی دی جارہی ہے اور اس کے باوجود یہ کالم شائع بھی ہورہے ہیں۔ خبریں اور ان پر تجزیے کا کوئی اصول ہوتا ہے‘ ہاں کبھی یہ اصول تھا مگر اب دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کہیں کوئی دوسرا بازی نہ لے جائے اسی لیے ایک ہفتے میں اپنے آنے والے کالم میںہر قسم کی صحافتی اخلاقیات کی دفعات اور تعزیرات نظر انداز کرکے سب کچھ بیان کردیا جائے‘ اگر ایسا ہی ہے تو چلیے ہم بھی ایسا ہی کر لیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اخبارات پر برا وقت اخبارات کی اپنی وجہ سے آیا ہے اس برے وقت کا‘ پبلشر ذمے دار ہے اور اس کے بعد ایڈیٹر‘ روزنامہ زمیندار‘ کامریڈ بھی ایک زمانے میں شائع ہوتے رہے ہیں مجال ہے کوئی ان اخبارات کو محض اپنے اشتہار کی قیمت پر خرید سکا ہو‘ کسی بھی بڑی لائبریری جائیے‘ ان اخبارات کی پرانی فائلیں دیکھیے‘ آنکھیں کھل جاتی ہیں اور سمجھ میں آجائے گا کہ صحافت کس کا نام ہے‘ ہماری صحافت اس روز ہی ختم ہوگئی جب مالکان ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکمران کی دہلیز پر پہنچے تھے اور صحافت اس روز ہی رسوا ہوگئی تھی جب حکمرانوں نے اسے تقسیم کرکے اس میں اپنے لیے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ الگ کر دیے تھے‘ اس ملک میں ایسے بھی ایڈیٹر گزرے ہیں‘ اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جنہوں نے حکمرانوں کے سامنے واقعی کلمہ حق کہا‘ جناب صلاح الدین شہید‘ حمید نظامی‘ مجید نظامی بھی اسی قافلے میں شامل تھے مگر صلاح الدین ان سب میں ممتاز تھے اور عبدالکریم عابد نے بھی حق اور ناحق کے مابین لکیر کھینچ کر صحافت کی… ہم نام نہیں لیتے‘ کہ کسی کو دکھ دینا مقصود نہیں ہے‘ اسی لیے بات کھری کھری کرتے ہیں کہ اگر آج بھی صحافت زندہ ہونا چاہتی ہے تو اسے ان مالکان کی ضرورت ہے جن کے گھروں کے دروازوں پر ٹاٹ کے کپڑے کا پردہ لگا ہو‘ جو اپنے کارکن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے‘ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ جان لیجیے کہ یہ صحافت نہیں بلکہ کاروبار ہے اور جب کاروبار کیا جاتا ہے تو پھر منڈی میں بیٹھنا پڑتا ہے جہاں طلب اور رسد کے اصول کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب محض ایک نعرہ ہے‘ جب اس کا وارنٹ اپنے گلے میں آجائے تو یہی نعرہ انتقام کہلاتا ہے‘ اس بات کی ہمیشہ حمایت کی جانی چاہیے کہ جس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہو‘ کسی کا حق مارا ہو‘ کسی کے پلاٹوں پر قبضہ کیا ہو‘ وہ چاہے کوئی بھی ہو‘ عام شہری ہو یا سرکاری ملازم‘ قانون کے تحت قائم عدلیہ کے ذریعے اسے سزا ضرور ملنی چاہیے‘ لیکن ایسا ہو نہیں رہا‘ اسی لیے تو قبضہ مافیا سینے پر مونگ دَل رہا ہے‘ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ ریاست مدینہ جیسا نظام چاہتے ہیں‘ ہمیں ان کی نیت پر شک نہیں کرنا‘ کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے‘ مگر حکومت کی اس جانب کوئی کوشش نظر نہیں آرہی‘ ریاست مدینہ میں خلیفہ وقت سے سوال ہوا تھا کہ کرتا کہاں سے لیا؟ سوال کرنے والے کو کسی گھورا نہیں‘ بلکہ جواب دیا گیا‘ اور ایسا جواب کہ تاقیامت یہ جواب ہمارے لیے رہنمائی کا باعث ہے‘ نبی آخر زمانؐ کی حدیث مبارک ہے‘ کہ تم میں ہر کوئی اپنی رعیت کا ذمے دار ہے‘ آج اگر یہ سوال کسی بھی تنظم کے سربراہ‘ کسی ادارے کے مالک اور کسی آرگنائزیشن کے ذمے دار کے سامنے رکھا تو کتنے ہیں جو اس معیار پر پورا اتریں گے کہ وہ اپنے ذمہ رعایا کے حق اور انہیں عدل کے ماحول کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے رہے ہیں کیا پسند اور ناپسند کی وجہ سے یہ لوگ خود اپنے ادارے تباہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے؟ جی ہاں‘ کوئی مانے نہ مانے‘ اسی سبب بے شمار اشاعتی ادارے آج بھی تباہ ہورہے ہیں‘ ہر مالک کو رحیمے کی کہانی بہت پسند ہے‘ جو اپنے مالک کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا ہے۔ اس ملک کی صحافت زندہ ہوسکتی ہے‘ توانائی پکڑ سکتی ہے‘ ایک نہیں‘ سو نہیں‘ ہزار نہیں بلکہ لاکھوں کارکنوں کا چولہا جلاسکتی ہے اگر یہ حکمرانوں کی دہلیز سے اٹھ کر اپنے کارکنوں میں واپس آجائے‘ اور صحافتی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں‘ انہیں اس بات کی پہچان کرنا ہوگی کہ آزادی صحافت کیا ہے؟ کہا جارہا ہے کہ ٹریڈ یونین کمزور ہو چکی ہے‘ یہ کمزور نہیں بلکہ فروخت ہوچکی ہیں‘ اسے سمجھنا چاہیے کہ یہ کیوں کہا گیا کہ چراغ سب کے بجھیں گے۔ ہوا کسی کی نہیں ہے‘ کہا جارہا ہے کہ میڈیا مالکان، میڈیا ورکرز کا باہمی اتحاد ضروری ہے کیوں بھئی‘ آجر اور اجیر کا اتحاد؟ اگر یہ ہوا تو اسی ملک میں مستقبل میں عجیب الخلقت صحافتی بحران آتے رہیں گے ماضی میں ایوب خان کے زمانے میں مشترکہ دفاع کی پیش کش کی گئی تھی‘ کسی کو معلوم ہے کہ یہ مشترکہ دفاع کس کو کس کے لیے کرنا تھا اور اس کے خلاف ردعمل کیا ہوا تھا؟