کورونا وائرس بمقابلہ سیاسی جرثومے

334

پوری دنیا کی طرح ملک بھر میں کورونا وائرس کا شور ہے۔ اس شورابے میں ایسا لگ رہا تھا کہ قوم ملک کو نقصان پہنچانے والے ’’سیاسی جرثومے‘‘ کو بھلا رہی ہے۔ جراثیم چاہے کوئی بھی ہو وہ انسانوں کے لیے خطرناک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ہر طرح کے جراثیم کی بنیادی وجہ لوگوں کے اپنے اعمال ہی تو ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کوئی انوکھا وائرس نہیں ہے ابھی چند روز قبل تو ڈینگی سے متعارف ہوا تھا اور اب کورونا سامنے آگیا۔ جس کے لیے حفاطتی انتظامات کے بجائے شور زیادہ مچایا گیا۔ اس ’’چیخ و پکار‘‘ کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ میڈیا نے بھی بھر پور تعاون کیا۔ چاروں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو فوری طور پر چین اور ایران سمیت تمام ممالک سے واپس آنے والوں کو مزید ایک ایک ماہ تک وہیں پر رکنے کا مشورہ دیا جاتا اور ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا تو شاید وطن عزیز اس جراثیم سے محفوظ رہتا۔
سیاسی طور پر ملک کو نقصان پہنچانے والے جرثومے کو لوگ بھولتے ہی جارہے رہے تھے۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ ملک میں کرپشن کرکے مجرم بن جانے والوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نام پر ووٹ اور ووٹروں کا کیسا مذاق اڑایا۔ ہمارے ملک کے شاطر سیاست دان یہی کچھ تو کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے پاس جھوٹ بول کر اپنے چاہنے والوں کو دھوکا دینے کا جو تجربہ ہے اس سے فائدہ اٹھانا یہ سیاسی کھلاڑی خوب جانتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ملک اور عوام کا خیر خواہ تو کہتے ہیں مگر عملاً اپنے دعووں کے برعکس اس کا اظہار کرکے بتاتے ہیں۔ سابق وزیراعظم کی پلیٹ لیٹس تک کم ہوچکی تھیں جب تو وہ اپنے ملک میں موجود تھے، انہیں چلنے ہی میں نہیں اٹھ کر بیٹھنے میں تکلیف کا سامنا تھا۔ وہ ڈاکٹر یقینا اب شرم سے روزانہ ہی مرتے ہوںگے جنہوں نے میاں نواز شریف کو علاج کے لیے فوری لندن جانے کی اجازت دینے کی سفارش کی تھی۔ میاں صاحب، واقعی ’’شریف‘‘ ہیں۔ ان کی شرافت کے بارے میں وزارت خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے زبان کھولی تو یقینا شرافت کو ندامت ہوئی ہوگی۔
تسنیم اسلم نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزارت خارجہ کے حکام کو بھارت کیخلاف بیان بازی سے نہ صرف منع کیا تھا بلکہ یہ ہدایات بھی واضح طور پر دی تھیں کہ بھارت کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی‘‘۔ وزارت خارجہ کی سابقہ خاتون افسر تسنیم اسلم کا مزید کہنا تھا کہ شریف خاندان بھارت کا حامی تھا اور اس کی ایک وجہ شاید بھارت کے ساتھ ان کے کاروباری امور تھے۔ سابق ترجمان تسنیم اسلم کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے دفتر خارجہ کو یہ ہدایت بھی کی تھی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لینا اور نہ ہی بلوچستان میں بھارتی سرگرمیوں کا ذکر کرنا ہے، اسی لیے ان کے دور حکومت میں ان دونوں ہدایات پر عمل ہوتا رہا۔
اس انٹرویو میں تسنیم اسلم سے یہ بھی منسوب ہے کہ نواز شریف جب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی گئے تو وہاں انہوں نے کشمیری قیادت سے ملاقات نہیں کی جبکہ پاکستان کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ جو بھی پاکستانی رہنما نئی دہلی جاتا ہے وہ وہاں پر حریت قیادت سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کے خاندان کا پرانا تعلق بھی کشمیر سے بتایا جاتا ہے مگر وہ نئے اور پرانے تعلقات والوں سے بلا امتیاز اپنے موڈ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملا کرتے ہیں۔ اس لیے جب وہ نریندر مودی کی دعوت پر نئی دہلی گئے تو پرانے تعلقات کو اپنی ذاتی پالیسی کی ترجیحات کے مطابق ہی رکھا۔ نواز شریف ہی نہیں ان کے چھوٹے بھائی ’’چھوٹا شریف‘‘ بڑے نکلے انہوں نے اپنے ووٹ اور ووٹرز کو جنہوں نے انہیں قومی اسمبلی میں پہنچا کر اپوزیشن لیڈر بنادیا تھا ایسی عزت دی کہ اب اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ نواز شریف کے ساتھ شہباز شریف کو بھی واپس پاکستان آنا تھا مگر، انہیں واپس ہی آنا ہوتا تو وہ اس قدر محنت کرکے بیمار ہونے کے بعد بظاہر غلط بیانی سے کام لے کر ملک سے لندن کیوں جاتے۔ ایسے لیڈرز کی کیا ہمارے ملک کو واقعی ضرورت ہے؟ یہ سوچنا ہوگا جو شریف برادران اور مسلم لیگ کے ووٹرز ہیں۔ انہیں اپنے لیے نہیں ملک کے مستقبل کے لیے یہ سوچ کر آنے والے دنوں کے لیے اپنا سیاسی قدم اٹھانا ہوگا۔ کیونکہ ووٹ حاصل کرنے والا تو صرف اپنی ذہانت اور باتوں سے ووٹ لینا ہے اور اصل کردار تو ووٹ دینے والوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے آئندہ ملک اور ملک کے لوگوں سے مخلص ایماندار و دیانتدار سیاسی شخصیات کے سوائے کسی کو ووٹ مت دیں۔ یہی بات ملک و قوم کی ترقی کی ضامن ہوگی۔