خواتین مارچ کے بعد…

440

بہت سی خواتین کو 8 مارچ کا انتظار تھا۔ انہیں ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کی گرمجوشی سے یقین ہو چلا تھا کہ اب اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ ماسی صغراں اپنی بیٹی کو ساس نہیں بنانا چاہتی تھی اس کو اطلاع ملی کہ عورت مارچ میں آئو تمہارے دلّدر دور ہو جائیں گے۔ عورت پاور فل ہو جائے گی۔ باجی اے پاور فل کی ہوندا اے… او ہو نہیں سمجھوگی مردوں نے تمہیں تعلیم سے محروم کر رکھا ہے ناں… خیر یہ تو علامتی بات تھی مسئلہ یہ ہے کہ 8 مارچ یوم خواتین کے حوالے سے میڈیا پر جو ہنگامہ برپا کیا گیا اس سے تو ایسا لگ رہا تھا کہ 9 مارچ سے پاکستان میں شرح خواندگی 100 فی صد ہو جائے گی۔ پاکستان میں خواتین کی ملازمتوں کی شرح بھی بڑھ جائے ۔ دنیا بھر میں پاکستان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ جائے گا۔ ایشیا کا چیتا نہ سہی پاکستانی چیتے تو بن جائیں گے۔ غرض ہر طرف لال لال ہو گا اور خواتین مالا مال ہوں گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور اب ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ دو دن کی رنگینی تھی پھر وہی سب کچھ شروع ہو گیا۔ جس خاتون کا جہاں استیصال ہو رہا تھا وہی ہو رہا ہے۔
پاکستان سے کوئی آواز اٹھے تو دنیا بھر کے مظلوم اس سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ کوئی اظہارِ یکجہتی کرے تو کشمیری خواتین کو حوصلہ ملتا ہے۔ ایک جلوس کراچی میں نکلتا تھا تو کشمیری کئی روز تک اس سے قوت حاصل کرتے تھے۔ لیکن 8 مارچ آیا اور چلا گیا۔ کشمیری خواتین بند ہیں۔ حتیٰ کہ خواتین کو آزادی دلوانے کی دعویدار خواتین خود لاک ڈائون کا شکار ہیں بلکہ اب وہ چاہتی ہیں کہ ملک میں سب کچھ بند ہو جائے۔ 8 مارچ کے مارچ میں شریک خواتین نے پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کے لیے آواز نہیں اٹھائی بلکہ ان کے نزدیک عافیہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے شاید وہ ان کی پسند یا ان کے قبیل کی عورت نہیں تھی۔ اگر عافیہ بھی مادر پدر آزادی کی وکیل ہوتی تو آج اس کے لیے یہ عورتیں آواز اٹھاتیں۔ ان عورتوں کو تو بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے مجرموں سے بڑی ہمدردی ہے وہ ان کو سزائے موت دینے کی حمایت ہی نہیں کر سکیں بلکہ جب ایک ٹی وی رپورٹر نے سوال کیا کہ آپ اپنے بچوں یا بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور انہیں قتل کرنے والوں کو سزائے موت کی حمایت کیوں نہیں کرتیں تو عورت مارچ والی خواتین آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں کہ ہاں انہیں سزا ہونی چاہیے لیکن موت کی سزا نہیں۔ حیرت ہے کہ ان کے دل سے اپنے بچوں بچیوں کے لیے رحم نکل گیا۔
آٹھ مارچ کی مناسبت سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی، ان کو مناسب معاوضہ دینے کے مطالبات کیے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بے معنی مطالبات ہوتے رہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ 8 مارچ والی خواتین کے مطالبات کیا تھے اور درست تھے یا نہیں اس پر غور کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کن چیزوں سے متاثر ہیں اور کون سی چیز سے انہیں سہولتیں مل سکتی ہیں۔ خواتین مارچ کے قائدین تو کہتے ہیں کہ جن خواتین کو کھلے عام دستور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے کی اجازت ہو، شرعی احکامات کے خلاف تقریریں کرنے کی اجازت اور حق حاصل ہو، آزادی اظہار کے نام پر وہ معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیر رہی ہوں اپنی مرضی سے سفر کرنے اپنی مرضی سے شوہر بدلنے اپنی مرضی کے جلسے کرنے اور نعرے لگانے کی اجازت اور حق ہو انہیں اور کیا آزادی اور حق چاہیے۔ 8 مارچ کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ مردوں کے اس معاشرے میں ان آزاد عورتوں کی تنظیموں کو تو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوا ہے گویا دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے۔ لیکن مظلوم اور پسی ہوئی عورت کو کچھ نہیں ملا۔ اس عورت مارچ کی ہمنوا پیپلز پارٹی کی بہت سی خواتین ہیں ان رہنما خواتین کو تو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ خواتین کہاں کی مظلوم ہیں کاری کون سی خواتین قرار دی جاتی ہیں۔ قرآن سے شادی کس حکومت کے دور میں کی جاتی ہے۔ کوئی ہندو لڑکی اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرے تو اسے قتل کرنے کے لیے سندھ کے دور دراز گائوں سے بھی لوگ کراچی پہنچ جاتے ہیں اور قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس وقت کسی عورت مارچ اور خواتین کے حقوق والی رہنما نے آواز نہیں اٹھائی۔ اس وقت کیا کبھی نہیں اٹھائی۔ عورت پر ظلم اس وقت بھی ہوتا تھا جب بھٹو صاحب کی حکومت تھی جنرل پرویز مشرف تو عورتوں کو آگے لانے اور بڑھانے کے دعویدار تھے ان کے اپنے فوجی افسر نے بلوچستان میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کی۔ عورت مارچ تو 8 مارچ کو ہو گیا لیکن پورے ملک میں ہزاروں لاکھوں عورتیں اپنے بچوں، شوہروں یا بھائیوں سے محروم کر دی گئی ہیں کیونکہ انہیں لا پتا کر دیا گیا ہے اسی شہر کراچی میں 35 ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا ان کے قتل سے بیک وقت ماں، بیوی، بیٹی، بہن متاثر ہوئی اور عورت مارچ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ہوا یوں کہ عورت کے ساتھ جو ظلم پہلے ہوتا تھا وہ اب بھی ہو رہا ہے اور عورت مارچ کے بعد بھی ہو رہا ہے۔ اس اعتبار سے تو عورت مارچ بھی مظلوم عورتوں پر ایک اور ظلم تھا۔