کرفیو‘ حبس بے جا اور اب بے دخلی

284

 

 

بھارت جس کا نام اب انتہاء پسندستان ہونا چاہیے یہ ملک اس وقت دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے، مقبوضہ کشمیر کے شہری‘ مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں‘ جوان اور بوڑھے سب مسلسل دو سو تئیس دنوں سے محصور ہیں‘ بھارت کی مودی سرکار کا ذہن انتہا پسندی کے وائرس سے بھرا پڑا ہے جس کے باعث نفرت کا وائرس لاکھوں زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے کشمیر کی آزادی کی تحریک ایک مزاحمت ہے اسے راستے سے ہٹانے کے لیے پانچ اگست کا دن چنا گیا‘ جس کے بعد کشمیر بطور ریاست اب موجود میں نہیں رہی، اسے تین حصوں میں تقسیم کرکے دہلی سرکار کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جموں میں ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی تیاریاں ہیں کہ چھ ہزار پنڈتوں کے خاندانوں کی واپسی کے لیے مودی سرکار ان کے پائوں پڑی ہوئی ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں۔ آگ، لاٹھی، گولی، فساد، جلائو گھیرائو، مارو، پکڑو، بھگائو، نکالو، لوٹو کی مودی مہم جوئی عروج پر ہے اور ایسا دھواں اٹھ رہا ہے جس میں نہتے انسانوں کا لہو بھی شامل ہے۔ بھارتی میڈیا سب کچھ جاننے کے باوجود بھارت ماتا کی جے کہنے والوں کے گیت گا رہا ہے۔ سیکولر بھارت میں اب جمہوریت نہیں مل رہی یہاں اب زندگی وبال جان بن چکی ہے۔
پانچ اگست کے بعد دوسرا وار کرتے ہوئے11 دسمبر 2019ء کو بھارتی پارلیمینٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائیگی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔ اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا خدشہ بڑھ رہا ہے، اس متنازع قانون کیخلاف بھارت بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ، مغربی بنگال سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جبکہ ریاست کیرالہ اس قانون کو عدالت عظمیٰ لے گئی ہے۔ دہلی میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر بی جے پی کے غنڈوں نے حملہ کیا جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے جن میں 50سے زائد مسلمان ہلاک سیکڑوں زخمی ہوئے انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ مساجد، اسکولوں اور کاروباری مراکزکو شدید نقصان پہنچایا، ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ جے رام ٹھاکر کی نظر میں ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کا نعرے لگانے والے ہی بھارت میں رہنے کا حق پاسکتے ہیں جو یہ نہیں کہیں گے وہ بھارت مخالف سمجھے جائیں گے۔ دہلی فسادات میں پولیس نے 531 ایف آئی آر درج کیں اور 1647افراد کو حراست میں لیا جن علاقوں میں فسادات ہوئے ان میں جعفر آباد، موجپور چوک، وجے پارک، برہمپوری، بابر پور، نور الہٰی، یمنا وہار، مصطفی آباد، چاند باغ، بھجن پورا، کراول نگر، کھجوری خاص، کردم پوری اور گوکلپوری سمیت کئی علاقوں کے نام لیے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں کے نام جاننے کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں فسادی آئے اور کئی گھنٹوں تک ان علاقوں میں جو کچھ کیا اس سے کتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کی قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان پہنچایا کئی دنوں تک سیکڑوں فسادی آگ و خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کسی نے ان کا ہاتھ نہیں روکا۔
متنازع شہریت قانون کو چیلنج کرنے والی 150 سے زائد درخواستیں سماعت کے لیے زیر التوا ہیں تمام درخواستوں پر مودی سرکارکو نوٹس جاری ہو چکا ہے لیکن عدالت عظمیٰ جلد سماعت کرنے سے انکاری ہے درخواستوں کی سماعت میں تاخیر پر خواتین کا مظاہرہ بھی ہوا عدالت عظمیٰ نے سماعت ٹالتے ہوئے مودی سرکارکو جواب داخل کرنے کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا تھا افسوس عدالت عظمیٰ نے اس حساس مسئلے کو جلد سماعت کے قابل نہیں سمجھا انتہا پسندانہ قوانین کی وجہ سے دنیا میں بھارت کا چہرہ کالا ہو چکا ہے۔ سوال ہے کہ بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے سب کے سب ’’غدار‘‘ ہیں ان کی فہرست روز بروز طویل ہوتی جا رہی ہے‘ جلائو گھیرائو کے لیے انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے اور مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں‘ اب تو انتہاپسند وزیر اعظم نریندر مودی کا مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنے آبائواجداد کے علاقے سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔