عبد الستارخان
اسراء ومعراج وہ عظیم سفر بلکہ معجزہ ہے جس کی کیفیت وحقیقت تک انسانی عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی۔انسانی تاریخ میں اس طرح کا سفر نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ یہ ایسا سفر ہے جس میں انسانیت کے خاصّۂ خاصان ، فرشتوں کے خاصّۂ خاصان کے ہم رکاب تھے ۔اس سفر میں دنیا کے تمام ناموس اور فطرت وقدرت اور طبیعیات کے تمام قوانین ٹوٹ گئے تھے ، زندوں اور مردوں کا ملاپ ہوا، دور ، قریب ہوگئے ، انسان اور فرشتے ہمرکاب ہوئے ، حاضر اور مستقبل بلکہ دنیا اور آخرت یکجا ہوگئے تھے ۔ یہ سفرکیسے طے ہوااور کس رفتارسے طے ہوا؟ عقل دنگ ہے ،محو تماشا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ اسراء ومعراج کے سفر پر ایمان لانا ، ایمان بالقرآن کا جزو ہے ، سو ہم ایمان لائے اپنے رب پر،اپنے نبی کریمﷺ پر ، قرآن مجید اور اسلام کی حقانیت پر۔
آئنسٹائن کے نظریۂ اضافت میں زمان ومکان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق ہر چیز حرکت میں ہے ۔ جو چیز حرکت کر رہی ہے وہ اپنا زمان اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے ۔ جو چیز جس رفتار سے حرکت کرتی ہے اسی حساب سے اس کا زمان سکڑجاتاہے ۔ اس نظریہ کے مطابق اگر ہم تصور کریں کہ کوئی راکٹ روشنی کی رفتار پر چلتاہے تو زمین کے زمان کے مطابق 50ہزار سال کی مسافت اس راکٹ کے زمان کے مطابق ایک دن میں طے ہوگی۔فرض کیا جائے کہ کائنات کا سفر طے کرنے کے بعد اس راکٹ میں سوار افراد جب کرۂ ارضی پرواپس آئیں گے تو یقینا زمین میں موجود کئی نسلیں تبدیل ہوچکی ہوں گے ۔ معلوم ہوا کہ راکٹ جتنی تیز رفتار سے چلے گا اسی حساب سے اس کا وقت سکڑجائے گا۔
اس عظیم سفر میں رسول اکرمﷺ جس سواری میں سوار ہوئے اسے براق کہا جاتا ہے ۔ اسی براق پر سوار ہوکر رسول اکرمﷺ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے اور وہاں سے آپﷺ کی آسمانوں تک معراج ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ براق کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ایسی مخلوق ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہے نیز اس کی رفتار کیا ہے ۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے کتنی مسافت کس رفتار سے طے کی تھی۔
مکہ مکرمہ اور بیت المقدس کے درمیان فضائی مسافت 12سو کلو میٹر ہے ۔فرض کرلیتے ہیں کہ دونوں مقدس شہروں کی فضائی مسافت ایک ہزار کلو میٹر ہے تو پیدل سفر کرنے والا شخص اگر 5کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گا تو مکہ مکرمہ سے 200گھنٹے کے بعد بیت المقدس پہنچے گا۔ اگر سائیکل پر 20کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا جائے تو 50گھنٹے لگیں گے ۔ اگر گاڑی سے ایک سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر سفر کیا جائے تو 10گھنٹے لگیں گے ۔ اگر بلٹ ٹرین سے 300کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا جائے تو 3.3گھنٹے لگیں گے ۔ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کیا جائے جس کی رفتارایک ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہو تو یہ مسافت ایک گھنٹے میں طے کی جائے گی۔یہی سفر اگرجنگی طیارے سے کیا جائے تو وہ 12سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے صرف 50منٹ میں بیت المقدس پہنچے گا۔خلائی شٹل خلا سے زمین تک کا سفر 26ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کرتی ہے ۔ اگر اسی رفتار سے سفر کیا جائے تو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا سفر صرف 2منٹ میں طے کیا جائے گا۔خلائی شٹل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 54ہزار400کلو میٹر فی گھنٹہ ہے ۔ اگر اسی رفتار سے سفر کیا جائے تو دونوں مقدس شہروں کا سفر طے کرنے کیلئے صرف 2منٹ درکار ہوں گے ۔
سائنس کی دنیا میں اب تک کی معلوم تیز ترین رفتار روشنی کی ہے ۔ روشنی کی رفتارایک کھرب79کروڑ25لاکھ2ہزار848 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے ۔ دونوں مقدس شہروں کا سفر اگر روشنی کی رفتار سے کیا جائے تو اسے طے کرنے کیلئے ایک سیکنڈ کا 0.000006 واں حصہ درکار ہوگا۔
چاندزمین سے 3لاکھ81ہزار706کلو میٹر دور ہے ۔اگر روشنی کی رفتار سے چاند تک کا سفر کیا جائے تو وہاں تک پہنچنے کیلئے صرف 2سیکنڈ لگیں گے ۔اسی رفتار سے اگر سورج تک کا سفر کیا جائے جو زمین سے تقریباً 14کروڑ96لاکھ کلو میٹردور ہے تو وہاں پہنچنے کیلئے 8منٹ لگیں گے ۔کرۂ ارضی سے سب سے دور سیارہ پلوٹو ہے جو 5کھرب90کروڑکلو میٹر دور ہے ۔ وہاں پہنچنے کیلئے ہمیں 3گھنٹے 28منٹ لگیں گے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس کا جواب سائنس دینے سے قاصر ہے اور انسانی عقل جس پر دنگ ہے وہ یہ ہے کہ جب سائنس کی دنیا میں معلوم تیز ترین رفتار سے پلوٹو سیارے تک پہنچنے کیلئے 3گھنٹے 28منٹ درکار ہیں تو آسمانِ دنیا تک پہنچنے کیلئے کتنا وقت لگے گا۔رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمان تک اور پھر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے یہاں تک ساتویں آسمان تک کا سفر طے کیا اور پھر اسی رات آپﷺ مکہ مکرمہ واپس آگئے ۔ آخر براق کی رفتار کیا تھی؟۔یقینا یہ روشنی کی رفتار سے تیز تر ہوگی۔معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور ہی رفتار ہے جس تک انسانی عقل کی ابھی تک رسائی نہیں ہوئی۔اس رفتار کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہوا:
‘‘اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آجاتا ہے ۔’’(القمر50)۔
رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے :
‘‘میں مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں تھا کہ فرشتہ میری سواری کیلئے براق لے آیا۔’’
حدیث مبارک کے شارحین کا کہنا ہے کہ براق دراصل‘‘ بریق ’’سے نکلا ہے ۔بریق چمک کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ رسول اکرمﷺ کی سواری کیلئے جو چیز پیش کی گئی وہ انتہائی سفید، چمکداراور روشن تھی کہ اس کا نام براق پڑگیا۔یہ بھی کہا گیا کہ براق کو اس لئے براق کہا جاتا ہے کہ وہ ‘‘برق ’’یعنی بجلی کی چمک کی مانند اس کی رفتار ہے ۔
براق کے بارے میں کہا گیا کہ یہ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑاہے ۔اس کا ایک قدم یہاں اور دوسرا حد نگاہ میں ہوتا ہے ۔ابن سعد نے واقدی سے نقل کیا کہ براق کے 2 پر ہیں۔
علمائے کرام اور مفکرینِ عظام کو یہ سوال بھی الجھائے رکھا کہ حق جل شانہ نے رسول اکرمﷺ کی سواری کیلئے براق کا انتخاب کیوں کیا جبکہ وہ اس بات پر قادر تھا کہ بغیر کسی سواری کے آپﷺ کو سفر کے تمام مراحل طے کرادیتا۔فتح الباری کے مصنف حافظ ابن حجرؒ نے اس ضمن میں لکھا ہے :
‘‘اسراء ومعراج کے سفر میں سواری کے تقرر میں بڑی حکمت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ اپنے نبیﷺ کیلئے زمین کو سکیڑ دیتا،خرقِ عادت سفر کیلئے اللہ تعالیٰ نے سفر کیلئے معمول بہ یعنی سواری کا تقرر اس لئے کیا تاکہ اللہ کے رسول ﷺ کو انسیت اور مانوسیت ہو ،علاوہ ازیں بادشاہ جب اپنے مقربین میں سے کسی کو اپنے دربار میں بلاتا ہے تو اس کیلئے سواری روانہ کرتا ہے ۔’’
ابن ابی جمرہ اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ اپنے نبی ﷺ کو آسمانوں تک کی معراج بغیر براق کے بھی کرادیتا لیکن براق کی سواری آپﷺ کیلئے اعزاز واکرام تھی، وجہ یہ ہے کہ اگر براق کے بغیر آپﷺ سے یہ سفر کرایا جاتاتو آپﷺ چل کر جاتے جبکہ سوار ی زیادہ باعث تکریم ہے ۔’’
امام ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام نے براق کی لگام تھامی اور رسول اکرمﷺ کو اس پر سوار ہونے کی دعوت دی تو براق اللہ کے رسول ﷺ کی ہیبت سے کانپ اٹھا۔حضرت جبریل علیہ السلام نے اس سے کہا:
‘‘ٹھہرجا! اللہ تعالیٰ کی قسم رسول اکرمﷺ سے بہتر کوئی شخص اس سے پہلے تجھ پر سوار نہیں ہوا۔’’
شارحین کہتے ہیں:
‘‘جس طرح احد پہاڑ آپ ﷺ کی ہیبت سے کانپ اٹھا تھا، اسی طرح براق بھی کانپ گیا۔’’
اللہ کے رسول ﷺ کا یہ سفر 2حصوں پر مبنی تھا۔ پہلا حصہ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک اور دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو وہ کونسی قوت عطا فرمائی کہ آپﷺ نے ہوا کا غلاف چیرتے ہوئے خلا کا سفر طے کیاجہاں کشش ثقل اور آکسیجن کے قوانین اپنی جگہ ہیں۔ اس حوالے سے انسان اپنی محدود ِعقل وفہم کی بنا پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس سلسلے میں صرف یہ کہا جاسکتاہے کہ انسان قانون طبیعیات کا پابند ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہے ۔ اس سفر میں جو خرق عادت امور پیش آئے ان کی توجیہ سورۃالاسراء کے پہلے لفظ میں پوشیدہ ہے اور وہ لفظ ہے ‘‘سبحان’’یعنی پاک ہے وہ ذات ہر عیب سے ، ہر نقص سے ، ہر کمی سے اورہر قانون سے ۔ جب وہ ذات کسی چیز کا ارادہ کرتی ہے تو اسے کہتی ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے ۔