’’نو مسلم خواتین اور تربیت اولاد‘‘

356

 

محمد یوسف منصوری

پاکستان میں باہر کی قوتیں تجدد پسند اور زرخرید خواتین کو آلہ کار بنا کر عورتوں پر ظلم کی داستانیں عام کررہے ہیں تا کہ ہمارا خاندانی نظام تباہ و برباد ہوجائے اور اس کے نتیجے میں نئی نسل کو گمراہ کرنا آسان ہوجائے۔ یہ عناصر یہ تصور دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ اولاد پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا اور ان کو تربیت دینا، عورت پر گراں ذمے داری ہے۔ اس کو اس ذمے داری سے آزادی دی جائے تو دوسری طرف بیچاری بھولی بھالی خواتین مصنوعی مصروفیات کا بہانہ بنا کر اپنی اولاد کو موبائل دے کر اور ٹی وی لگا کر اس کے حوالے کردیتی ہیں، پھر موبائل پر بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق چند دلچسپ پروگرام دے کر نئی نسل کو اسلام کی تعلیمات سے ہٹا کر اپنے مقاصد اور ثقافت کا آہستہ آہستہ دلدادہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح آئندہ کی نسل تباہ و برباد ہورہی ہے۔ اپنی نو مسلم بہنوں کے بارے میں معلوم کرتے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھ مغربی تہذیب میں کھولی اور خوش قسمتی اور ان کی دلی تمنا کی وجہ سے اسلام جیسی نعمت ان کو ملی۔ وہ اولاد پرورش اور تربیت کے بارے میں کیا طرزِ عمل اختیار کررہی ہیں۔ ان خواتین نے اسلام کے خاندانی نظام کے بارے میں بہت تعریف کی ہے اور مغربی اقدار جہاں عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، ان کو خواتین پر ظلم تعبیر کیا ہے کہ جہاں عورت معاشی ذمے داریاں اُٹھانے کے ساتھ گھر اور بچوں کی ذمے داری اُٹھاتی ہے۔
محترمہ جنان امریکا سے تعلق رکھتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ والدین کی سب سے بڑی ذمے داری تربیت اولاد ہے۔ محترمہ خدیجہ فلپائن سے تعلق رکھتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں ڈیوٹی پر جاتے وقت اسلام سے متعلق پمفلٹ رکھ کر جاتی ہوں، ان کو پڑھ کر میرا بیٹا اسلام لے آیا اور اس نے خود ہی اپنا نام عمر رکھنا پسند کیا۔ محترمہ امریہ (سوئیڈن) کے آٹھ بچے ہیں اور بڑی خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ شاہین گلفام (ہالینڈ) تین بیٹیاں، بڑی خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ اسی طرح عائشہ عدویہ (امریکا) کہتی ہیں نسلوں کی تربیت کو حقیر نہ سمجھیں۔ اسماء (سوئیڈن) بچوں کی تربیت سے مستقبل روشن ہوگا۔ عائشہ عبداللہ (برطانیہ) چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، دعا ہے کہ صالح نسل تیار کرسکوں۔ فرحت جہاں (سوئیڈن) بچوں کی تربیت اسلامی طریقے سے کروں، یہ میری خواہش ہے۔ محترمہ عائشہ (کینیڈا) میں گھر پر قرآن اور عربی کی اپنے بچوں کو تعلیم دیتی ہوں۔ محترمہ بنتِ آدم (برطانیہ) بچوں کی تربیت مال و دولت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ محترمہ صبیحہ خان (جنوبی افریقا) دو بچے ہیں، ان کو اسلامی شعائر پر عمل پیرا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ محترمہ فاطمہ ہیرین (جرمنی) میرے کئی بچے ہیں، جو میری توجہ کا مرکز ہیں، وہ میرے لیے بوجھ نہیں ہیں بلکہ میری نسوانی مسرت کی معراج ہیں۔ مغربی عورت جو خوشی باہر نکل کر سیروتفریح میں حاصل کرتی ہے مجھے وہ اپنے گھر ہی پر اپنے بچوں کی صحبت سے حاصل ہوجاتی ہے۔ جب میں اپنے بچوں سے باتیں کرتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دنیا کی چابی میرے ہاتھ میں آگئی ہے۔ میرا پانچ سالہ بچہ مجھ سے دن میں سیکڑوں سوال دریافت کرتا ہے میں اسلام کی بنیاد پر اس کی ذہنی، فکری، اخلاقی اور عملی تربیت کرتی رہتی ہوں۔
اصل بات یہ ہے کہ مغربی عورتوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ ڈے کیئر سینٹرز میں مہنگی آیائیں رکھنے کے باوجود اپنے معصوم بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت نہ دے سکیں۔ ان کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ معاشی، معاشرتی زندگی بہتر ہو تو اولاد کی تربیت بھی بہتر ہوگی مگر وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ خاندانی زندگی ہی بچوں کو محفوظ، صحت مندانہ ماحول اور حوصلہ افزائی کرنے والا ماحول مہیا کرتا ہے اور عورت اور مرد کی فطری جنسی خواہش خاندان کے محفوظ قلعے ہی میں صحیح انداز سے پوری ہوسکتی ہے۔ اسی طرح میری بھابی روبینہ زوجہ یحییٰ منصوری نے کینیڈا میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش اور وہ کامیاب ہوئیں۔