او آئی سی اور کشمیر و فلسطین

353

اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے خصوصی نمائندہ برائے جموں و کشمیر جناب یوسف ایم الدوبے نے ایک وفد کے ہمراہ پچھلے دنوں پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر امور کشمیر امین گنڈا پور اور سیکرٹری خارجہ سہیل محمود سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ جب کہ مظفر آباد میں وہ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم سے بھی ملے۔ نیز حریت کانفرنس کے ایک نمائندہ وفد نے بھی ان سے ملاقات کی اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ دورہ محض خیر سگالی نوعیت کا تھا ورنہ او آئی سی مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اسے صورت حال کا چشم دید مشاہدہ کرنے کے لیے مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنا چاہیے تھا جسے بھارت نے گزشتہ سال 5 اگست سے مکمل طور پر لاک ڈائون کر رکھا ہے۔ پوری دنیا سے کشمیری مسلمانوں کا رابطہ منقطع ہے، کاروبار اور معاشی سرگرمیاں بند ہیں، اشیائے خوراک کی قلت نے پورے علاقے میں قحط کی سی صورت حال پیدا کردی ہے، تعلیمی ادارے بند اور نوجوان گھروں میں محصور ہیں اور قابض بھارتی فوج گھروں پر چھاپے مار کر نوجوانوں کو گرفتار کررہی ہے، جو نوجوان گرفتاری دینے سے انکار کرتے ہیں انہیں موقع پر گولی مار دی جاتی ہے، پوری آبادی ان ناگفتہ بہ حالات میں ڈپریشن کا شکار ہے اور اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہندی سروس بی بی سی لندن کی نمائندہ خصوصی پرنیکا دوبے نے مقبوضہ کشمیر کے اسپتالوں اور مراکز صحت کا دورہ کیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ شدید سردی اور برفباری کے باوجود اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ پرنیکا کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس راستہ بھی کوئی نہیں ہے۔ خواتین انتہائی عدم تحفظ اور خوف کے عالم میں زندگی گزار رہی ہیں، انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی بھارتی فوجی یا آر ایس ایس کا غنڈہ گھر میں داخل ہوگا اور ان کی عصمت تار تار کرکے رکھ دے گا۔ ان حالات سے براہ راست آگاہی کے لیے او آئی سی کو بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کرنی چاہیے تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھارت کا جواب نفی میں ہوتا لیکن او آئی سی کا فرض تھا کہ یہ کوشش تو کرتی اور اس کے لیے ہر ممکن دبائو ڈالتی۔ نیز مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈائون ختم کرانے کے لیے بھی اسے بہت زیادہ متحرک ہونا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے او آئی سی کے اہم ارکان میں سیاسی آمادگی کا فقدان تھا بلکہ اس کے برعکس وہ بھارتی وزیراعظم کو ایوارڈ دینے اور اس کے ساتھ اربوں ڈالر کے اقتصادی سمجھوتے کرنے میں مصروف تھے جس میں درپردہ یہ پیغام پوشیدہ تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات کو درست سمجھتے ہیں۔
خیر اس معاملے میں او آئی سی ارکان سے کیا گلہ جب خود مسئلہ کشمیر کا اہم فریق پاکستان بھی منافقت کا مظاہرہ کررہا ہے اور پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ اس معاملے میں پیٹھ دکھائی ہے۔ پاکستان کی سابق سیکرٹری خارجہ محترمہ تسنیم اسلم کا انٹرویو ابھی چند روز پہلے اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں دفتر خارجہ کو یہ ہدایت تھی کہ وہ بھارت کو موضوعِ بحث نہ بنائے، خود نواز شریف بھی بطور وزیراعظم پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کا ذکر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن پکڑا گیا تو نواز شریف ایک دفعہ بھی اس کا نام زبان پر نہیں لائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی بھارت نوازی کوئی انکشاف نہیں، ایک کھلا راز ہے۔ انہوں نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بنتے ہی یہ گمراہ کن دعویٰ کیا تھا کہ انہیں عوام نے بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے، پھر جب تک وہ وزیراعظم رہے بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہے لیکن نواز شریف پر ہی کیا موقوف ہے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی بھارت سے خوف کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ خوف ہی ہے کہ فوجی عدالت سے کلبھوشن کو سزائے موت دیے جانے اور عالمی عدالت سے کیس جیتنے کے باوجود اس معاملے کو گول کردیا گیا ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ کلبھوشن ابھی تک پاکستان کی تحویل میں ہے یا اسے رہا کردیا گیا ہے۔ بھارت سے خوف ہی کا نتیجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر او آئی سی کا کوئی ہنگامی اجلاس نہیں بلایا جاسکا۔ او آئی سی کے بااثر رکن ممالک اس خوف (اسے مفاد پرستی بھی کہہ سکتے ہیں) میں مبتلا ہیں اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر زیر بحث لایا گیا یا مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورت حال پر تنقید کی گئی تو بھارت ناراض ہوجائے گا، جب کہ بھارت کی نارضی وہ ایفورڈ نہیں کرسکتے۔ فلسطین تو عرب ملکوں کا اپنا مسئلہ ہے اگر او آئی سی اس مسئلے پر فعال ہوتی اور اسرائیل کے خلاف اپنا دبائو استعمال کرتی تو فلسطینیوں کی حالت زار وہ نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔ اسرائیل انہیں مسلسل ان کی آبائی زمینوں اور مکانوں سے بے دخل کررہا ہے اور یہودی بستیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں لیکن ان بستیوں کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے باوجود کوئی اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے اور اس نے او آئی سی کے رکن ملکوں کو اسرائیل کے آگے جھکا رکھا ہے، وہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا تو دور کی بات اس کے ساتھ رابطے ہی میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ فلسطینیوں کا اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوگا کہ وہ اپنے عرب بھائیوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی بے یارومددگار ہو کر رہ گئے ہیں۔
او آئی سی کشمیر و فلسطین کے مسائل میں نہایت موثر کردار ادا کرسکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اسے امریکا اور بھارت کے دبائو سے نکالا جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس پر سوچ بچار کیا جانا چاہیے۔