ڈاکٹر سید محمد اکرم
قائداعظمؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ وہ اپنی قوت ایمانی کی بنا پر کفر کی طاقتوں کے سامنے زندگی بھر سینہ سپر رہے۔ سخت ترین کارزاروں میں بے تیغ لڑے اور فتح یاب ہوئے۔ مسلمانوں کی آزادی اور سربلندی کیلئے ان کی سیاسی ذہانت اور عملی جرأت برصغیر کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ ان کا ہر بیان اسلامی روح کا آئینہ دار اور واضح اظہار ہے۔ آپ نے للکار کر کہا : ’’ہندو اور انگریزو! تم دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ تم اس اسلامی تہذیب کو کبھی نہ مٹا سکو گے جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارا نورِ ایمان زندہ ہے۔ ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘ (مرکزی اسمبلی 22 مارچ 1930ء)
قائداعظمؒ نے مسلم قومیت کی بنیاد کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں فرمایا ’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید پرہے، نہ کہ وطن یا نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا، اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 8 مارچ 1944ء)
’’ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بنا پر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 1940ء)
اگر ہم بعثت نبویؐ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ تاریخ اسلام کا آغاز ہی دو قومی نظریے سے ہوا۔ یعنی ایک ملت کفر اور ایک ملت اسلام۔ قائداعظمؒ نے کہا ’’جہاں تک دو قومی نظریے کا تعلق ہے تو یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوئی۔‘‘ (25 اکتوبر 1947ء)
قائداعظم نے فرمایا ’’اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان کا جواب ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ دار ہیں۔ (26 مارچ 1948ء)
قائداعظمؒ نے اپنے ایمان کی روح کا اظہار ان روشن الفاظ میں کیا : ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔‘‘ (14 فروری 1947ء)
اسلامیہ کالج پشاور میں نہایت صریح الفاظ میں فرمایا ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ (13 جنوری 1948ء)
گاندھی نے 15 ستمبر 1944ء کو قائداعظمؒ کے نام ایک خط میں لکھا ’’مجھے تاریخ میں کوئی ایسا مثال نہیں ملتی جس کے مطابق تبدیلی مذہب والے لوگ اور ان کے اسلاف اپنے اسلاف کو چھوڑ کر خود ایک قوم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھیں۔ اگر ہندوستان ورود اسلام سے پہلے ایک قوم تھا تو اسے اپنی اولاد کی ایک بڑی تعداد کی تبدیلی مذہب کے بعد بھی ایک قوم ہی رہنا ہو گا۔ آپ کا علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے۔ کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کر لیں تو دونوں قومیں ایک ہو جائیں گی؟ ‘‘
قائداعظمؒ محمد علی جناح نے دو روز بعد خط کا جواب دیا کہ ’’ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن، زبان اور ادب، فن اور معماری، نام اور القاب اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاق، رسوم اور تقویم، تاریخ اور روایات، رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ (جناح کری ایٹر آف پاکستان، ص 149)
قائداعظمؒ کے تمام بیانات اس امر کے شاہد ہیں کہ پاکستان کی تشکیل کا واحد جواز اسلام تھا تاکہ مسلمان، ہندو راج سے محفوظ رہتے ہوئے قرآنی احکام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان دستور ساز اسمبلی کے دوسرے اجلاس میں قائداعظمؒ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا ’’ہم اس نقطہ نظر کو اپنے سامنے رکھیں کہ بتدریج ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، کیونکہ مذہب تو ہر فرد کا ذاتی ایمان ہے بلکہ سیاسی نقطۂ نظر سے وہ ریاست کے شہری متصور ہوں گے۔‘‘ (تقاریر، بیانات اور پیغامات قائداعظمؒ، جلد اول، لاہور 1996ء)
مندرجہ بالا تقریر کا مفہوم جیسا کہ بعض سیکولر (لادین) ذہن کے دانشوروں اور نابالغ سیاستدانوں نے سمجھا ہے، یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے بلکہ ان الفاظ سے قائداعظم کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تمام باشندوں کے حقوق یکساں طور پر محفوظ ہوں گے۔ سب باشندوں پر یکساں قوانین کا نفاذ ہو گا۔ کسی مسلمان کو بحیثیت مذہب کوئی مخصوص مراعات حاصل نہیں ہوں گی جو اسے ہندو یا عیسائی وغیرہ سے ممیز کر سکیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی جمہوری اصول دین اسلام کی اصل و اساس ہے جس سے عدل و احسان پر مبنی ایک اعلیٰ انسانی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
قائداعظمؒ کے اس بیان میں سیکولر ازم، لادینیت کا کوئی عنصر نہیں ہے یہ ایک جمہوری نظام کا اعلان ہے۔ اس اعلان کو مزید سمجھنے کیلئے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ میثاقِ مدینہ، بالتحقیق تاریخی اعتبار سے دنیا کا قدیم ترین تحریری آئین مملکت ہے۔ یہ وہ آئینی دستاویز ہے جو پہلی صدی ہجری میں حضرت محمدؐ اور مدینہ منورہ (یثرب) کے باشندوں (مسلمان، یہودی، مشرک وغیرہ) کے درمیان طے پائی۔ میثاقِ مدینہ 47 شقوں پر مشتمل ہے۔ ذیل میں شق نمبر 25 درج کی جاتی ہے جس کا ادراک اور جس کی تعمیل آج بے حد ضروری ہے۔
’’بنو عوف کے یہودی اپنے موالی سمیت مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک اْمت ہوں گے۔ یہود اپنے دین پر کاربند رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔ البتہ جس نے گناہ کیا وہ اس کے نتیجے میں خود اور اپنے گھر والوں کو تباہی میں ڈالے گا۔‘‘ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد 21، ص 916)
قائداعظمؒ محمد علی جناح کا بیان میثاقِ مدینہ ہی کا ترجمان ہے جس کی دفعات کامل رواداری، مذہبی آزادی اور حْسنِ تعاون پر مبنی ہیں اور یہی اسلامی معاشرہ کی اساس ہے۔ قائداعظمؒ نے ہر پہلو سے اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے۔ جو چیز اچھی نہیں وہ اسلام نہیں، کیونکہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔‘‘ (27 مارچ 1947ء)
مزید اسلام کی تعریف میں فرمایا ’’اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں بھی آ جائے ان کے ساتھ فیاضی کو روا رکھتا ہے۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 2 نومبر 1940ء)
کراچی بار ایسوسی ایشن میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابلِ اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ ہر شخص کے ساتھ انصاف، راوداری اور مساوی برتائو اسلام کا بنیادی اصول ہے۔‘‘ اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں، اسلام ہر مسلمان کیلئے ضابطۂ حیات بھی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ مساوات، آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔‘‘ (25 جنوری 1948ء)
امریکی نامہ نگار سے انٹرویو میںکہا ’’ہم نے اسلام اور اس کے نظریات سے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔‘‘ (فروری 1948)
’’پاکستان کی اقلیتوں کے افراد برابر کے شہری ہیں۔‘‘ ’کراچی ستمبر 1946ء)
’’ہمارا اللہ پر ایمان، اپنی ذات پر ایمان اور اپنی تقدیر پر ایمان ہے۔‘‘ (9 فروری 1948ء)
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ آپ وہ سبق بھول گئے جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا۔‘‘ (ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء)
’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘ (القرآن)