نئی نسل کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے روشناس کرایا جائے

450

مارچ ہر سال آتا ہے‘ جب بھی یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو 23 مارچ1940 کی یادیں بھی ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں لیکن اس بار یہ دن ہمارے دلوں پر ایک بوجھ لے کر آیا ہے‘ یہ بوجھ پانچ اگست کا وہ اقدام ہے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اٹھایا ہے‘ آج اس اقدام کو گزرے ساتواں مہینہ ہے‘ اور وہاں مسلسل کرفیو ہے‘23 مارچ1940 تو بر صغیر کے تمام مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ تھا اور اب بھی ہے‘ لیکن جب تک اپنا لہو اس چراغ میں رہا یہ چراغ جلتا رہا‘ اور اس وقت ہم خود جائزہ لیں کہ اس چراغ میں جلنے والا تیل اپنا ہے یا پرایا‘ ادھار کے تیل سے جلتے چراغ کبھی نہیں جلتے‘ سال میں جب بھی پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان کے ایام آتے ہیں‘ یقین مانیے دل بوجھل ہوجاتا ہے‘ یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی‘ ہماری نوجوان نسل ان ایام سے کتنی واقفیت رکھتی ہے یہ نکتہ ہمارے لیے خود احتسابی سے کم نہیں ہے‘ ہمارا تعلیمی نصاب اب اس قابل نہیں رہا کہ جس کے ذریعے ہماری نوجوان نسل تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان سے متعلق برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کے حقائق جان سکیں‘ نائن الیون نے تو ہمارے تعلیمی نصاب پر بھی حملہ کیا تھا اور اس وقت ہماری کابینہ کی ایک وزیر امریکی امور خارجہ کی عہدیداروں کے دبائو میں آکر تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لانے پر نہ صرف آمادہ ہوئیں بلکہ یہ سب کچھ کر گزری تھیں‘ اب ہمارا تعلیمی نصاب ہمیں وہ معلومات نہیں دے رہا جس کی بنیاد پر ہم اپنی نوجوان نسل کو بتا سکیں کہ تحریک پاکستان کیا تھی؟ اور کیوں تھی؟
قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانادینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم!ان جذبوں کو نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کرنے، وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے اور اس کے حصار کو مستحکم تر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اپنی زندگیوں کا مرکز ومحور بنا لیں اور کسی لمحہ بھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیںضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغازکردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکے۔قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن،غربت،جہالت،عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کاادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار،وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت،لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم در تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ بقول قائد اعظمؒ ’’ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریبا ً114خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میںاس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا توانہوں نے فرمایاکہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں تاریخ کی گواہی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی نے بھی پاکستان کے قیام کے لیے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دیا تھا اور مسلم لیگ کے یوپی کے صدر نواب اسماعیل خان نے دستور ساز کمیٹی میں مولانا مودوی کو شامل کیا تھا‘ سید سلمان ندوی‘ مولانا اسحاق سندیلوی‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی‘ مولانا آذاد سبحانی بھی اس کمیٹی میں شامل تھے قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی درخواست پر مولانا نے ریڈیو پاکستان پر اسلامی نطام کے لیے تقریریں کیں اور اسلام کے سیاسی‘ معاشی‘ قانونی نظام پر گفتگو کی قیام پاکستان کے بعد ابھی تک اپنی منزل کے حصول کیلئے سرگرداں اس وطنِ عزیز کے آزمائش اور ابتلا کے دور میں بانیان ِ پاکستان کے جانشین ہونے کے دعویداروں کو آج یوم پاکستان کے موقع پر روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر ملک کی ترقی اور سلطانی جمہور کے ذریعے عوام کی فلاح کیخلاف ملک دشمنوں اور سازشی عناصر کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عہد کرنا ہوگا اور اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کیلئے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو بانیانِ پاکستان نے عملاً کرکے دکھایا تھا آج ہم سب پر فرض ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے شہداء کو سلام عقیدت پیش کریں‘ انہیں یاد کریں اور نوجوان نسل کو بتائیں‘ تئیس مارچ کی طرح 12 مارچ 1949کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے کہ اس روز قرارداد مقاصد پاس ہوئی تھی یہی قرار داد1956 اور1973 کے دستور پاکستان کا حصہ بنی 1956کا آئین بھی 23 مارچ کوہی نافذ ہوا تھا پاکستان کے لیے جدوجہد کے وقت جو بنیادی باتیں قیادت کے ذہن میں تھیں ان میں سے سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ تھی کہ پاکستان میں عدل انصاف کا نظام قائم کیا جائے گا کسی کو بھی اچھوت نہیں سمجھا جائے گا پاکستان کے آئین میں بھی اس کی مکمل وضاحت کی گئی ہے اور شہریوں کے بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے اسے آئینی ضمانت بھی فراہم کی گئی ہے لیکن عمل کے میدان میں بنیادی حقوق کی یہ تلوار کبھی نیام سے باہر نہیں نکلی آئین پاکستان کے آرٹیکل ایک سے لے کر آرٹیکل پچیس تک انہی بنیادی حقوق کی وضاحت کی گئی ہے اور اسے قرارداد مقاصد کے ذریعے اہل پاکستان کے لیے مزید ضمانتوں کے تحفظ فراہم کیے گئے ہیں قرارداد پاکستان جسے 1940میں منظور کیا گیا یہ قرارداد قیام پاکستان کے لیے رہنماء اصول تھی کہ بر صغیر میں مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک ریاست میں کے اندر لایا جائے ہر کوئی اس کی اپنے مطلب کی تشریح کررہا ہے قائد اعظم محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ اس بارے میں ہماری ہر حکومت عوام کی رہنمائی کرنے میں ناکام رہی ہے مسلم لیگ‘ بلاشبہ خالق پاکستان کہلاتی ہے اور ہے بھی‘ لیکن قائد اعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ‘ وہ مسلم لیگ نہیں رہی اگر ایک مضبوط سیاسی کردار کی حامل ہوتی تو یہ کونسل اور کنونشن لیگ میں تقسیم نہ ہوتی‘ اور ملک میں قومی اتحاد ہوتا تو سقوط ڈھاکا جیسا بدترین سانحہ ہماری تاریخ میںکبھی بھی نہ ہوتا‘ ہم میں ایک خرابی یہ پیدا ہوگئی کہ ہم ایک قوم نہیں بن سکے‘ بھارت‘ ہندوئوں کا ملک تھامگر اب نہیں‘ یہ ملک اب انتہا پسندوں کا ملک بن چکا ہے‘ جہاں اس وقت مسلمانوں کے لیے ماضی سے بڑھ کر خطرات‘ مشکلات اور چیلنجز آچکے ہیں‘ بھارت میں پیدا ہونے والی یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنا بھولا ہوا سبق یاد کریں ہندو قوم پرستی‘ جس سے بر صغیر کے مسلمانوں نے نجات کے لیے پاکستان حاصل کیاتھا‘ آج بھی قائم ہے اس میں اب شدت آچکی ہے اور بھارت کی سیاسی قیادت اسی شدت کو بڑھاوا دے رہی ہے آج ہم78 واں یوم پاکستان منارہے ہیں یہ دن ہر سال آتا اور گزر جاتا ہے‘ لیکن نئی نسل آج بھی یوم پاکستان کی بنیادی سوچ اور قرارداد پاکستان کی اصل روح سے متعارف نہیں ہوئی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ تعلیم نصاب سے پاکستان کی تاریخ غائب کی جارہی ہے‘ اسے ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے زور لگایا جارہا ہے پرنٹ اور اب الیکٹرانک میڈیا‘ سوشل میڈیا اور دیگر ایسے تمام ذرائع جنہیں تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا ان سب کو انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے پرنٹ میڈیا میں حالت یہ ہوگئی ہے کہ یوم پاکستان کے خصوصی سپلیمنٹ کے لیے قرارداد پاکستان سے متعلق مضامین پر کم اور اشتہارات پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔

یوم پاکستان‘ آئین کی روشنی میں

آرٹیکل ۱… مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا
آرٹیکل۲…اسلام پاکستان کا مملکتی مذھب ہوگا
آڑٹیکل ۳…مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمے اور اس کے بنیادی اصول کے تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے
آرٹیکل ۴… ہر شہری کا خواہ کہیں بھی ہو‘ اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے
خصوصا
۱… کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان‘آزادی جسم‘شہرت یا املاک کے لیے مضر ہو‘سوائے جب کہ قانون اس کی اجازتدے
۲… کسی شخص کے کوئی ایسا کام کرنے میں ممانعت یا مزاحمت نہیں ہوگی جو قانونا ممنوع نہ ہو
۳… کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیاجائے گا جس کا کرنا اس کے لیے قانونا ضروری نہ ہو
آرٹیکل ۵… مملکت سے وفادری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے
آرٹیکل۶… کوئی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرییا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے‘تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یاسازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہوگا
آرٹیکل ۹… کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جب کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہو
آرٹیکل۱۱… غلامی معدوم اور ممنوع ہے
۱… بیگار کی تمام صورتوں اور انسانوں کی خریدو فروخت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے
۲… چودہ سال سے کم عمر کے بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پر خطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا
آرٹیکل۱۷… پاکستان کی حاکمیت علی یا سالمیت‘ امن عامہ یا اخلاق کے مفاد کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع‘ ہر شہری کو انجمنیں یا یونین بنانے کا حق ہوگا
مگر شرط یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت فرقہ وارانہ‘ نسلی‘ علاقائی منافرت یا دشمنی کی ہمت افزائی نہیں کرے گی یا تشدد گروپ یا سیکشن کے طور پر موسوم یا تشکیل نہیں کی جائے گی۔