راشد منان
آج سے ایک صدی قبل 1918 میں انفلوینزا نامی ایک مہلک جرثومہ انسانی زندگی پر حملہ آور ہوا جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانیں لقمہ اجل بنیں صدی گزر جانے کے بعد بھی اس بیماری کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ سینٹرز آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (CDC) کی 12 فروری 2019 کی رپورٹ کے مطابق صرف سال 2017-18 میں اس مہلک بیماری نے 80ہزار انسانی جانیں نگل لی ہیں اس بیماری کی بھی کم وبیش وہی علامات بتائی جاتی تھیں جو آج کے نئے حملہ آور کورونا وائرس میں پائی جاتی ہیں یعنی تیز بخار، نزلہ، گلے کی خراش، کھانسی پٹھوں اور جوڑوں کا درد تھکاوٹ وغیرہ اور اس سے بچنے کی تدابیر بھی وہی کچھ بتائی جا رہی ہیں جو گزشتہ صدی کے انسانوں کے لیے تجویز کی گئیں تھیں جن میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال، ہاتھ منہ کا بار بار دھونا، ناک میں مستقل پانی ڈالنا، ایک دوسرے سے تین فٹ کی دوری برقرار رکھنا، مشتبہ شخص کو بالکل جامد کر دینا وغیرہ اور ضرورت اور بیماری کے پھیلائو کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی تقریبات، پارک، پلے گرونڈ، شاپنگ سینٹرز، ہوٹل و دیگر تفریحی مقامات بس سروس، ریلوے، ہوائی سفر کے ساتھ ساتھ قصبوں اور شہروں کی بندش بھی شامل ہے۔ ہر اس گھر اور جگہ کو وسیع تر قومی مفاد کے لیے قرنطینہ مرکز میں تبدیل کردینا جہاں اس کی ذرا سی بھی علامات موجود ہو۔ اس وباء سے بچنے کے لیے انتہائی اقدامات تصور کیے جارہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا بشمول پاکستان ان تمام حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد شروع کر دیاگیا ہے تمام مذہبی سیاسی وسماجی تنظیموں نے ہر قسم کے چھوٹے بڑے اجتماعات منسوخ کرکے اپنے کارکنان کو محدود و محصور کر لینے کی تلقین کی ہے۔ اسکول کالج کے ساتھ سرکاری دفاتر بند اور انتہائی ضروری اجلاسوں کے علاوہ ساری دیگر مصروفیات ترک کر دی گئیں ہیں۔
انفلوینزا یا اس سے ملتا جلتا آج کا وبائی مرض کورونا دنیا اس سے پہلی بار نبرد آزما نہیں ہو رہی اس وباء سے مماثل کئی اور بیماریوں سے ہم گزر چکے ہیں برڈ فلو جس کا پہلا کیس 1997 میں ہانگ کانگ کے ایک شخص میں پایا گیا اور 2006 کے آتے آتے اس وبائی مرض نے مہلک شکل اختیار کرلی اور دنیا کے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں آئے اس بیماری کے بارے میں عام خیال یہ پایا گیا کہ یہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک موسمی پرندوں کی ہجرت سے پھیلی اور زیادہ تر یہ مرغیوں سے انسانوں کو لگی اور ہمیں وہ سہانے دن بھی یاد ہیں جب مہنگائی کی شرح مرغیوں کی حد تک کم ہوئی اور لوگوں نے 100 روپے کی تین مرغیوں سے اپنے ڈیپ فریزر بھر لیے تھے۔ 2009 میں سوائن فلو کا نام بھی زبان زد عام ہوا اس کی دریافت امریکا میں ہوئی اور اس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہمارا پڑوسی ہندوستان تھا اور یہ ان ممالک میں پھیلا جہاں سور عام پائے جاتے یا ان کا گوشت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈینگی اور کانگو وائرس اب بھی عام ہیں علامات اور اس سے بچائو کی تدابیر وہی کچھ ہیں جو انفلوینزا اور کورونا جیسے مہلک مرض کے لیے ماہرین تجویز کررہے ہیں مگر کورونا وائرس کے مسئلے پر عام افراد کی بنسبت متاثرہ ممالک کی حکومتیں اس پر زیادہ فکرمند ہیں اور ان کی اس فکر مندی نے میڈیا کے توسط سے پوری دنیا میں ایک ایسی فضاء پیدا کردی ہے کہ یہ محسوس ہونے لگا کہ اب شاید دنیا اپنے اختتام کی طرف گامزن ہو چلی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعتا اس صدی کا
آغاز گزشتہ صدی کی طرح ایک بار پھر کسی مہلک وباء سے ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ایران اور چین کے بعد اٹلی اس کے شدید متاثرین میں ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی اس کی آمد ہوئی ہے اللہ خیر کرے اور ہمارے ملک پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے اس لیے کہ ہم اس وباء کی آمد سے قبل ہی ملک میں پھیلی معاشی وباء کا شکار ہیں جس کے نتیجہ میں ایک بحرانی کیفیت ہے ہر طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا شور ہے خدا نہ کرے اس مرض کے پھیلائو کی صورت میں ہمیں مکمل اور ہر طرح کی بندش کی طرف جانا پڑے اور جس کے نتیجے میں اس وبائی مرض کے ساتھ ساتھ لوگ غربت اور افلاس میں گھر کر بھوکوں مرنے لگیں۔ ہمارے ارباب اہل و دانش کو اس مرض کے پھیلائو کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی بھرپور منصوبہ بندی کرنا ہوگی کہ مکمل لاک ڈاون کی صورت میں ان بے روزگار گھرانوں اور روزانہ کی دیہاڑی لگانے والوں کے گھروں کے چولہے کس طرح جلے رکھے جا سکتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو چھٹیاں دی یا نہ دی جائیں بہر صورت ان کو تنخواہ نہ ملنے کا خطرہ ہرگز نہیں جبکہ نجی ملازمت کرنے والوں کا یہ اندیشہ سچائی پر مبنی ہے کہ ان کو چھٹیاں دیے جانے کی صورت میں بہر حال ان کی تنخواہوں کی کٹوتی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا لہٰذا حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ ایسی صورت میں ان کے اس نقصان کو کسی طریقہ سے پورا کرے بصورت دیگر ان کی مشکلات لامحالہ بڑھ جائیں گی اور جس سے نکلنے کی انہیں کوئی سبیل بھی نہ ملے گی ذیل میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔
ٹھیک فرمایا امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے حکومت لاک ڈاون کی صورت میں ایسے گھرانوں کے گیس و بجلی کے بلوں کو معاف کرے پانچ صد روپے سے کم گیس جلانے والے اور تین سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے اس کے حقدار ٹھیرائے جائیں اشیاء صرف کے حصول کے لیے ملک میں موجود یوٹیلیٹی اسٹورز کی بے حد کمی ہے اس ضمن میں کم از کم آٹا دال چاول تیل چینی اور بچوں کے لیے خشک دودھ کے لیے تمام بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز پر حکومت کی طرف سے رعایتی کائونٹرز بنائے جائیں جہاں راشن و سہولت اور کفالت کارڈ کے بجائے پانچ صد روپوں سے کم گیس بل یا تین صد یونٹ سے کم بجلی بل استعمال کرنے والے افراد اپنے شناختی کارڈ بشمول گیس وبجلی بل کی تصدیق شدہ نقل پر یوٹیلیٹی اسٹور کی قیمت پر مذکورہ چیزیں خرید سکیں پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ان بچوں جن کی ماہانہ فیس دو ہزار تک ہے مندرجہ بالا طریقہ کے مطابق رواں تعلیمی سال کے لیے حکومت وقت اسکولوں کو براہ راست ادا کرے یہ اور اس طرح کے اقدامات اس بحرانی کیفیت میں لوگوں کے دکھوں کا مداوا بن سکتے ہیں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلائو اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات پر جب حکومتیں ترقی یافتہ ممالک سے امداد اور قرضے معاف کرنے کی اپیلیں کر سکتی ہیں تو کیوں نہ عام افراد جو اس موذی وباء کے براہ راست متاثر ہیں حکومت وقت سے اپنا حق طلب کریں جن کے نام پرچندے اکھٹے کر کے اپنی جیبوں کو بھرا جاتا ہے۔ دو ہزار پانچ کے زلزلہ زدگان کی امداد میں ملنے والے خیمے رضائیاں اور کمبل آج بھی ان پوش لوگوں کے اپنے گھروں اور ان کے دوست اور رشتہ داروں کے گھروں پر مل جائیں گے جو ان کو مستحقین تک پہنچانے پر مامور تھے۔ کورونا کا مرض تمام ترقی پزیر ممالک کے حکمرانوں خصوصاً مدینہ کے فلاحی ریاست کے دعویداروں سے اس بات کا متقاضی ہے کہ کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے تم بھی تو کچھ کرونا، ہمت و حوصلے کی تلقین سے کچھ آگے تو بڑھونا۔