افغان وحدت و استقلال کے امین (حصہ دوم)

378

افغانستان میں خاندانی حکمرانی، سوویت روس کی مداخلت، اشتراکیت کی ترویج و ابلاغ کے خلاف اسلام پسندوں نے شاہ کے دور ہی میں عوامی بیداری کی تحریک شروع کردی۔ سردار محمد دائود خان نے مارکسسٹوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو دبانا شروع کر دیا۔ انہیں قتل کیا جاتا، جیلوں میں ڈالا جاتا۔ ان حالات سے مجبور ہو کر کئی رہنما ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ سردار دائود کے خلاف مسلح کاروائیاں بھی ہوئیں۔ ظاہر شاہ کے دور میں ماسکو نواز حکومتی حلقوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ جس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ افغان حکومت نے پشتونستان تحریک ابھاری۔ کابل میں جلا وطن حکومت قائم کی گئی تھی۔ یوم پشتونستان کا جشن حکومتی سطح پر منایا جاتا۔ سردار دائود ان تقاریب میں خود شریک ہوتے۔ ریڈیو کابل یا ٹیلی ویژن پر اس تحریک کے حوالے سے خصوصی نشریات پیش کی جاتیں۔ پاکستان کے اندر 70ء کی دہائی میں پشتون علیحدگی کی مسلح تحریک کی چنگاری اُٹھی۔ جسے ذوالفقار علی بھٹو نے بھڑکنے نہ دیا۔ پاکستان کے اندر کمیونزم اور نیشنلزم کی بنیاد پر ملک توڑنے کی سیاست ہوئی۔ راولپنڈی اور حیدرآباد سازش کیسوں میں اس کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ اپریل 1977ء میں سردار دائود اور روسی صدر لیوند برژنیف کے درمیان ملاقات کے دوران لفظی جنگ ہوئی۔ وجہ معاملات میں مداخلت اور افغانستان کے شمالی علاقوں کے حوالے سے برژنیف کا نقطہ نظر تھا۔
برژنیف سردائود سے چاہتا تھا کہ افغانستان کے اندر ماسکو کی رضا سے ہٹ کر کسی منصوبے پر کام نہ کیا جائے، خاص کر شمال کے صوبوں میں ناٹو ممالک کے ماہرین پر اعتراض کیا۔ سردار دائود آخری وقتوں میں روسی حصار سے نکلنے کی پالیسی اپنا چکے تھے۔ وہ غیر کمیونسٹ ممالک، اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ خارجہ پالیسی کی تجدید کرنے لگے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھی سردار دائود کو مشورہ دے چکے تھے۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی نے بھی انہیں پاکستان بارے میں خیالات بدلنے کی گزارش کی تھی۔ 1976ء میں بھٹو اور سردار دائود کے درمیان راہ و رسم ہوئی۔ اقتدار پر جنرل ضیاء الحق کے قبضے کے بعد بھی دونوں ممالک
کے تعلقات میں بہتری دیکھنے کو ملی۔ جنرل ضیاء نے اقتدار حاصل کرنے کے فوراً بعد کابل کا دورہ کیا۔ جس کے بعد مارچ 1978ء کو سردار دائود نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ دسمبر 1977ء میں نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں وفد نے ماسکو میں روسی صدر برژنیف سے ملاقات کی۔ برژنیف نے وفد کے ساتھ بالادست کا بر تائو کیا۔ بعد ازاں نور محمد ترہ کئی اپنے ہمرائیوں سے گویا ہوئے کہ اگر یہی برتائو رہا تو دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن سے مدد لی جاسکتی ہے۔ 27اپریل 1978ء کو کمیونسٹوں نے فوجی کشی کرکے سردار دائود سے اقتدار چھین لیا۔ انہیں خاندان سمیت قتل کر دیا۔ گویا افغانستان کے اندر ماسکو کے اشتراک سے فساد کی بنیاد رکھ دی گئی۔ نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں فسطائی حکومت بنی۔ خلق اور پرچم، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ گروہی اقتدار ان کا نصب العین تھا۔ چونکہ اس ذریعے وسیع تر مقاصد تک پہنچا جا سکتا تھا۔ انہیں افغان عوام کی حمایت قطعی حاصل نہ تھی۔ عوام ان سے نفرت کرتے تھے۔ یہ کمیونسٹ اپنے ان پڑھ شریک جماعت افراد کو غیر جماعتی اعلیٰ تعلیم یافتہ افغانوں پر ترجیح دیتے تھے۔ اقتدار کے اس دور میں پشتونوں اور فارسی بولنے والوںکے درمیان تفریق بھی پیدا کی گئی۔ پرچمی گروہ میں فارسی زبان افغان کمیونسٹ غالب تھے۔ جبکہ خلقیوں پر پشتون اکثریت کی چھاپ تھی۔ اقتدار پر
قبضہ خلقی گروہ نے حاصل کیا تھا۔ جنہوں نے پرچمیوں کو نظر انداز کر دیا۔ کابل میں تعینات روسی سفیر ’’ الیگزینڈر پوزا نوف‘‘ نے خلقیوں پر واضح کیا کہ جب تک پرچمی گروہ کے رہنمائوں کو حکومت میں شامل نہیں کیا جاتا، ان کی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ یہ سفیر 1972ء سے نومبر 1979ء تک کابل میں تعینات رہا۔ اس طرح ببرک کارمل اور دوسرے پرچمیوں کو حکومت میں جگہ دی گئی۔ یوںماسکو نے تین دن بعد حکومت تسلیم کر لی۔
واضح ہو کہ نور محمد ترکئی 1951ء میں ’’نور‘‘ کے جبکہ ببرک کارمل نے 1957 ء میں ’’مارید‘‘ کے مستعار نام کے ساتھ ماسکو اور کے جی بی کے لیے کام شروع کیا تھا۔ وہ خود کو افغانستان سے زیادہ ماسکو کے قریب و وفادار باور کراتے۔ غرض خلقی اور پرچمی آپس میں دست و گریبان تھے۔ یہ مختصر دور ان کی عیش و عشرت کا زمانہ بھی تھا۔ رقص و سرود، مے خواری کی محفلیں جمتیں۔ بالغ مرد وعورت کو تعلیم دینے کی پالیسی کے تحت آنے والی خواتین کے ساتھ کمیونسٹوں نے شادیاں رچانا شروع کر دیں۔ اس ضمن میں دھونس اور زبردستی کا سہارا بھی لیا جاتا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو رات دیر تک دفاتر میں بٹھائے رکھا جاتا۔ کابل میں اقتدار پر کمیونسٹوں کے قبضے کے بعد کیوبا کے آنجہانی صدر ’’فیدرل کاسترو‘‘ کے بھائی ’’راول کاسترو‘‘ انقلاب کی مبارکباد دینے کابل کے دورے پر گئے ’’رائول کاسترو‘‘ نے وہاں نور محمد ترہ کئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور دوسرے کمیونسٹوں کی عیش نشاط ٹھاٹ باٹ دیکھے تو انہیں طنزاً مخاطب کیا کہ اس طرح کی زندگی میرے بھائی فیدرل کاسترو کو کیوبا میں میسر نہیں۔
خلقی اور پرچمی سوویت یونین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک کے دنیا کی سیاست سے واقفیت نہ تھے۔ ان کے دماغوں میں اسلام اور دینی شعائر بالخصوص پاکستان سے نفرت اور دشمنی ٹھونسی گئی تھی۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ظاہر شاہ اور اس کے بعد سردار دائود کو مغربی یورپی ممالک، امریکا، اسلامی ممالک اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات استوار نہ کرنے دیں۔ ہزاروں روسی مشیر اور جاسوس فوج، بیورو کریسی اور دیگر شعبوں میں داخل ہوچکے تھے۔ اقتدار پر قبضے کے بعد تو وزارتوں میں ذمے داریوں پر یہ مشیر اور جاسوس مامور تھے۔ ریڈیو کابل اور سرکاری ٹیلی ویژن تک میں روسی معاونین ڈیوٹیاں انجام دیتے تھے۔ ایران کی کمیونسٹ ’’تودہ پارٹی‘‘ کے لوگوںکو ویزے جاری کیے گئے۔ جو کابل کی کمیونسٹ رجیم کے ساتھ کام کرنے لگے۔ ’’تودہ پارٹی‘‘ کے وابستگان کو افغان وزارت خارجہ اور چند کو ریڈیو کابل اور ٹیلی ویژن میں ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ کمیونسٹ دور میں واحد افغان ملت کے بجائے افغان ملتوں کا کلمہ عام کیا گیا۔ جس سے قومی و علاقائی تفریق کی بو آتی تھی۔ سرکاری دفاتر میں لینن کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ وزارت خارجہ کی عمارت میں لینن کا مجسمہ کھڑا کیا گیا۔ افغان قومی پرچم سرخ رنگ میں تبدیل کیا گیا۔ چناں چہ بہت جلد حفیظ اللہ امین اور نور محمد ترہ کئی ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوئے۔ حفیظ اللہ امین، نور محمد ترہ کئی اور ’’کے جی بی‘‘ کی جانب سے ہونے والے تین حملوں سے محفوظ رہیں۔ آخر کار امین کو ترہ کئی پر سبقت حاصل ہوئی۔ اُسے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ امین بھی مارکسسٹ تھے امریکا سے پڑھ کر آئے تھے۔ پرچمی اور خلقیوں میں نور محمد ترہ کئی کے ہم خیال لوگ انہیں امریکی ایجنٹ کہتے۔ حفیظ اللہ امین کو افغانستان میں پانچ ہزار سے زائد روسی جاسوسوں، مشیروں، کے جی بی کے غلبے سے تشویش لاحق تھی۔ ایک بار امین نے اپنے دفتر میں روسی سفیر پوزا نوف کو تھپڑ بھی رسید کیا۔ دراصل حفیظ اللہ امین، ظاہر شاہ کے وزیر اعظم موسیٰ شفیق اور سردار دائود کی مانند امریکا، پاکستان اور غیر کمیونسٹ ممالک سے تعلقات کی استواری کی پالیسی اپنا چکے تھے۔ جس نے امریکا سے اپنا سفیر کابل میں تعینات کرنے کا بھی کہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مخالف دینی جماعتوں سے روبط قائم ہوں۔ بالخصوص امین کا پاکستان کی طرف رجوع ماسکو کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
(جاری ہے)