بلوچستان کے وسائل واختیارات صوبے کے عوام کے حوالے کیے جائیں، سراج الحق

134
لاہور(نمائندہ جسارت)امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وفاقی حکومت کے سامنے سوال اٹھایا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو تحفظ دے سکتی ہے یا نہیں؟اگراسلام آبادسمجھتا ہے کہ بلوچستان کو ڈنڈے کے زور پر کنٹرول کرسکتا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوسکتی، وفاق کو یہ پالیسی بدلنا ہوگی،بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق تسلیم کیا جائے اور ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ صوبے میں پایا جانے والا احساس محرومی ختم کیا جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام کوئٹہ سانحے پر منعقدہ گرینڈ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جرگہ سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ، سینئر صوبائی وزیر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبد الرحیم زیارت وال ،بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر عبدالغنی خلجی ،جمعیت علمائے اسلام کے ملک سکندر ایڈووکیٹ ،عوامی نیشنل پارٹی کے زمرد خان ،نیشنل پارٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ،نیشنل پارٹی کے ملک عبدالولی کاکڑ،پیپلز پارٹی کے سعد اللہ شاہ ،جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ ،سابق صوبائی محتسب امان اللہ خان کنرانی،امین اللہ کاکڑ،مجلس وحدت المسلمین کے علامہ ہاشم موسوی ،جماعۃ الدعوۃ کے فاروق صدیقی،علامہ علی محمد ابوتراب اور صوبے کے دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور سماجی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول کی طرح کوئٹہ سانحے پر بھی وزیر اعظم کو سیاسی و فوجی قیادت کا مشترکہ مشاورتی اجلاس بلا کر صوبے میں امن کے قیام کے لیے وسیع تر منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی جس سے یہاں کے عوام کو ایک سہارا ملتا اور ان کی ڈھارس بندھائی جاتی مگر میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم کو اب تک اس اہم ترین ضرورت کا خیال کیوں نہیں آیا ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں بغیر انتھیزیا کے آپریشن جاری ہے اور یہ کب تک جاری رہتا ہے حکومت کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ،اگر تندرست شخص کو پاگل پن کا مریض قرار دے کر زبردستی اسے آپر یشن تھیٹر یا پاگل خانے لے جایا جائے گا تو وہ چیخے اور چلائے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟ بلوچستان جیسا بے پناہ وسائل سے مالا مال صوبہ اگر محرومیوں کا شکا ر ہے تو یہاں کے عوام کیا حکمرانوں کے گن گائیں گے اور اسلام آباد کو دعائیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں مگر گوادر میں روزانہ فی کس آمدنی 27روپے اور ملک کے دیگر شہروں میں 97روپے کیوں ہے حکمرانوں کا اس کا جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل اور اختیارات صوبے کے عوام کے حوالے کردیے جائیں تو یہ لوگ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور پھر کسی پر غداری یا بے وفائی کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ توپوں،ٹینکوں اور جہازوں سے ہم مشرقی پاکستان کو نہیں بچا سکے ، بلوچستان کے عوام کو بچہ سمجھنے کی حماقت نہ کریں اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے پالیسی سازوں کو صوبے کے عوام کے دل جیتنا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ اب بھی وزیر اعظم اپنی غلطی کا اعتراف کرکے قومی قیادت اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر ز کو کوئٹہ بلائیں اور مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔ انہوں نے کہا کہ شاید حکمران اس مسئلے پر بھی امریکا سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے ایک کمیشن فار ٹروتھ بنانے کی ضرورت ہے جو صوبے کے تمام مسائل کا جائزہ لے کر حقائق پر مبنی ایک رپورٹ تیار کرے اور پھر اس رپورٹ کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طور پران مسائل کے حل کا لائحہ عمل بنائیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک صوبے کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور ساتھ بٹھا کر فیصلے نہیں کیے جاتے تومسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھتا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ اور پشتون صوبے کی 2 آنکھیں ہیں قومی قیادت کو مسئلے کے حل کے لیے انہی آنکھوں سے مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کی بقا اور سا لمیت اس میں ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کا باعزت مقام دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ خوشحال پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو تعلیم وصحت اور روز گار کے یکساں مواقع دیے جائیں اور معاشی استحصال اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ مسلح دہشت گردی کی کوکھ سے جنم لینے والی معاشی دہشت گردی نے پورے ملک کے امن کو تہہ و بالا کردیا ہے اور پورا ملک امیر اور غریب کی بنیاد پر تقسیم ہوچکا ہے ۔انہوں نے بلوچستان کی قیادت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر اپنے مسائل کے حل کے لیے متحدہوجائیں اور مشترکہ لائحہ عمل بنا کر اسلام آباد چلے آئیں تو میں ان کے ساتھ ہر دروازے پر دستک دوں گا اوربند دروازوں کو دھکا دے کر کھولیں گے۔انہوں نے شہداکی قربانیوں کو زندہ رکھنے کے لیے تعلیم اور صحت کے اداروں کو شہدا کے نام سے منسوب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔