اقتصادی آزادی ۔ ہنوز دلی دور است

279

ڈاکٹر سید محبوب

ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد،بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے نظریات، خوابوں اور امنگوں کی تجربہ گاہ کے طور پر ایک علیحدہ مملکت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز، صاحب بصیرت، مخلص اور دیانت دار قیادت میں حاصل کر لی۔ یہ ملک اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اس لیے آزادی کی قدر کرنی چاہیے لیکن ساتھ ہی ان مقاصد کے لیے اپنی جدوجہد تیز تر کر دینی چاہیے جن کے لیے ہم نے ایک علیحدہ ملک حاصل کیا تھا۔

پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں وسائل پر ایک محدود طبقے کی اجارہ داری نہ ہو، جہاں امیر و غریب کے درمیان ہمالیائی فاصلے نہ ہوں بلکہ مدینہ المنورہ میں قائم اسلامی ریاست کی متعارف کردہ اخوت کی بنیاد پر صاحب وسائل طبقے کے وسائل میں بے وسائل اور غریب طبقے کا بھی حصہ ہو اور معاشی جدوجہد میں بقاء اور آگے بڑھنے کے لیے انہیں بھی ضروری وسائل حاصل ہوں۔ جہاں اہلیت، صلاحیت اور ٹیلنٹ کا سکہ چلتا ہو۔ جہاں سفارش، رشوت، اقربا پروری کی بنیاد پر نا اہل، لالچی، خود غرض، بد دیانت لوگوں کو آگے بڑھنے اور وسائل پر قبضہ کرنے کا موقع نہ ملے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور مسلمانان برصغیر کی خواہش تھی کہ آزادی کے حصول کے بعد اس مملکت خداداد کو اسلام کے سنہری معاشی اصولوں کی بنیاد پر چلایا جائے اور اس خواہش کا اظہار قائداعظمؒ نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر واضح طور پر کر دیا تھا۔ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے علاوہ اشتراکی نظام سے بھی بیزاری کا اظہار کرے سیکولر اور لادین ریاست کی خواہش رکھنے والوں کی فکری ہنڈیا بیچ چوراہے میں ہی پھوڑی تھی لیکن بد قسمتی سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے سامراجی عزائم کی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے سیکولر ازم کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔ آج جن لوگوں کو دانش فرنگ نے کھڑا کر رکھا ہے اور جن کی آنکھوں میں خاک نجف و مدینہ کے سرمے کے بجائے مے نوشی کی سرخی نظر آتی ہے، جو قصر ابیض سے فیض پاتے ہیں وہ خوب ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر پوری قوم کو فکری ابہام میں مبتلا کرکے ’’کارشر‘‘ میں اپنا حصہ بقدرجثہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کو اس کی نظریاتی نہج سے مکمل طور پر ہٹانے کے لیے بھر پور سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ فکری اسلحہ خانے سے پرانے کارتوس پھر سے نئے انداز سے آزمائے جا رہے ہیں۔ بعض کالم نگار تو کھلم کھلا ام الخبائث اور مے نوشی کے فوائد و ثمرات ملک کے کثیرالاشاعت روزنامے میں مسلسل لکھ رہے ہیں اور حالیہ تحریروں میں ان فکری رہزنوں نے مے نوشوں کی طرز حکمرانی کی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر دی ہیں اور مے نوش حکمرانوں کی تعریف میں صفحات سیاہ کیے تاہم وہ یحییٰ خان اور رنگیلا شاہ کی مثالیں دینا بھول گئے ہیں امید ہے کہ اس غیر ارادی سہو کا ازالہ وہ آئندہ کر دیں گے۔ ام الخبائث کے استعمال نے ایک سیاسی جماعت کے انتہائی مقبول رہنما اور ان کے چاہنے والوں کے لیے جس قدر خفت پیدا کی ہے امید ہے ہمارے ثناء خوان تفصیل مے اس کو بھی پیش نظر رکھیں گے۔
بد قسمتی سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعد ہماری قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے امریکا کی خوشنودی کے حصول کو اپنا مقصد اور نصب العین قرار دیا۔ معاشی، سماجی اور سیاسی آزادی گروی رکھ دی گئی۔ امریکا کی جانب سے بھیجی جانے والی گندم اونٹوں پر لاد کر گشت کروائی گئی۔ اونٹوں کے گلے میں تھینک یو امریکا کے کارڈ لٹکا کر قوم کی خوداری کو ٹھیس پہنچائی گئی اور انتہائی پست ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہمارے معاشی پالیسی سازوں اور حکمرانوں کے ذہنوں میں فکری اور معاشی کشکول کا خاکہ موجود تھا اور قرض و امداد کی بنیاد پر معاشی ضروریات کو وقتی، عارضی، سطحی اور لیلی اقتدار کے گرد طواف کرنے کی بنیاد پر استوار کیا گیا اور قومی ضروریات معاشی خود کفالت، اقتصادی آزادی، خود انحصاری کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا۔

مغرب کی بے شمار خوبیوں، میرٹ اور صلاحیت کی پزیرائی کے میکزم کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیاں اور اس کے لگائے ہوئے زخم عالمی معاشی نظام پر کس قدر گہرے ہیں اس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی (UNDP) کے مطابق دنیا کی 16 فی صد امیر آبادی دنیا کی 55 فی صد آمدنی پر قابض ہے جب کہ دنیا کی 72 فی صد غریب آبادی کے حصے میں صرف ایک فی صد آمدنی آتی ہے۔ پاکستان میں بھی دولت و وسائل کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کم اور زیادہ آمدنی والے طبقات میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ گنی کوالیفیشنیٹ جو1988ء میں 0.35 تھا 2015 ء میں بڑھ کر0.41 ہو گیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے اور معاشی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان کا 20فی صد امیر ترین طبقہ پاکستان کے غریب ترین 20 فی صد طبقے کے مقابلے میں 7 گنا زیادہ اشیاء و خدمات کا استعمال کرتا ہے جب کہ 1988 ء میں یہ فرق 5 گنا کا تھا۔ پاکستانی صوبوں میں پنجاب میں ترقی کی رفتار تیز ترین جب کہ بلوچستان میں سست ترین ہے۔ اگرچہ پاکستان چین اقتصادی راہ داری پر کام جاری ہے اور بلوچستان میں بہتری آئی ہے تاہم بلوچستان سے غربت کے خاتمے اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور معیاری تعلیم تک عام افراد کی رسائی کے لیے بہت کچھ کرنا ضروری ہے۔ پنجاب میں امیر و غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے جو آنے والے وقتوں میں طبقاتی کشمکش کو بھی تیز کر دے گا۔ اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی معاشی صورت حال پر جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق زر مبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر، ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ، ایف بی آر کی وصولیوں میں 16 فی صد اضافہ، شرح افراط زر 4.5 فی صد، بجٹ کے مالی خسارے کو 8 فی صد سے کم کر کے 3.5 فی صد کر دیا گیا ہے لیکن صنعتی نشو نما میں کمی ہوئی ہے جو 4.45 فی صد سے کم ہو کر 3.62 فی صد پر آ گئی ہے۔ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے جب کہ 2005ء سے 2015ء تک مختلف حکومتوں نے 50 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کیے جس میں سے 60 فی صد یعنی 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم بجٹ سپورٹ کے لیے استعمال کی گئی۔10 سال میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے 20 ارب 80 کروڑ ڈالر حاصل کیے گئے جب کہ 7 ارب 30 کروڑ ڈالر دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے گویا قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کیے گئے۔
متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ و کانگریس کی جو مشترکہ حکومت قائم کی گئی تھی اس میں مسلم لیگ کے حصے میں وزارت خزانہ آئی اور شہید ملت لیاقت علی خانؒ نے غریب دوست بجٹ پیش کر کے وسائل پر قابض سرمایہ داروں کے چھکے چھڑا دیے۔ اگر آزادی کے بعد جاگیردار نہ نظام کو ختم کر کے دولت کے اسلامی تعلیمات کے مطابق منصفانہ نظام تقسیم کو اختیار کیا جاتا تو ملک دو لخت کبھی بھی نہ ہوتا، نفرتیں پروان نہ چڑھتیں اور ہمارے دشمن کو صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ آزادی کے بعد ایوب خان کے دور میں محمد شعیب وزیرخزانہ رہے جو بیک وقت ورلڈ بینک کے ملازم تھے جب کہ پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز بھی بینک کے ملازم تھے۔ انڈیا نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ بنایا جس کی جڑیں اپنی زمین میں پیوست تھیں جب کہ پاکستان کے وزیر خزانہ محمد شعیب کے ایوب دور میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر امریکا میں تھے۔

پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ملک میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کے لیے اسلامی معیشت کے اصولوں سے استفادہ کرنا ہوگا۔ تعلیم کے معیار کو بین القوامی سطح پر لانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔

اور تعلیم کے موجودہ بجٹ کو 4 گنا بڑھانا ہو گا جب کہ نوجوانوں کو منشیات سے بچانے کے لیے آپریشن ضرب عضب کے دائرے کو منشیات فروشوں تک بڑھانا ہو گا کیوں کہ منشیات ملک کے گلی کوچوں تک پھیلائی جا چکی ہے اور سگریٹ نوشی کی وباء دس سال سے کم عمر بچوں تک پھیل چکی ہے۔ نوجوان ملک کی آبادی کا 60 فی صد سے بھی زائد ہیں نوجوانوں کو گمراہی؟ بے راہ روی اور منشیات سے جو صورت بچانا ہو گا۔ تعلیم میں نقل کے رجحان کی بیخ کنی کرنی ہو گی اور معیشت کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، جاگیردارنہ، سرمایہ دارنہ اور سود کے چنگل سے آزاد کرانا ہو گا۔