ابھی سوچ لیں، ورنہ دیر ہو جائے گی

442

 

 

ایک بات بار بار کہنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کورونا کے خلاف احتیاطی اقدامات کی ضرورت کے اشتہارات اوراعلانات کیے جارہے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ہر چیز کی ترجیح کو سامنے رکھا جائے۔ ہم تو عالم دین نہیں ہیں کہ کوئی فتویٰ دے سکیں۔ لیکن کسی وبا کی صورت میں با جماعت نمازیں ختم کرنے کے بارے میں بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بات نمازوں تک کیسے پہنچی۔ سب کچھ تو بند کر چکے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میڈیا کے سحر میں ہے اور میڈیا کو استعمال کرنے والوں نے آزمائش کر لی کہ جب چاہیں لوگوں سے اپنی بات منوا لیں اب صورتحال یہ ہے کہ کسی سے تھوڑی دیر مباحثہ کر کے کورونا، فلو اور دیگر بیماریوں میں ہلاکت خیزی کا موازنہ کیا جائے تو لوگ بات ماننے لگتے ہیں لیکن چند لمحوں کے بعد کہتے ہیں کہ لیکن… اور اس لیکن کے بعد بات وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جہاں سے بحث کر کے ہٹایا جاتا ہے یعنی لیکن بیماری تو ہے ناں… بالکل ہے!! اب ہم بھی لیکن کہیں گے کہ لیکن وائرس کا مقابلہ اینٹی بیکٹریا سے کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے بیماریوں کا مقابلہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔ چلیں یہ تو برسبیل تذکرہ تھا لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو ایک کاغذ پر نوٹ کرنا شروع کریں تو حیرت انگیز چیزیں سامنے آئیں گی۔ مثال کے طور پر جب سے کورونا کا شور بڑھایا گیا ہے یعنی بیماری سے زیادہ خوف پھیلایا گیا ہے جنوری تک پاکستان میں جو بیماری کورونا سے زیادہ خوفناک اور مہلک قرار دی جاتی تھی اس کا ذکر تک میڈیا اور ڈاکٹروں کی زبان پر نہیں آ رہا۔ ذہن پر زور دیں۔ کچھ یاد آیا… جی… پولیو کا ایک اور مریض سامنے آ گیا۔ پاکستان میں پولیو کے75 کیس ہوئے؟ 50 سے زیادہ ہو گئے۔ ہر ٹی وی چینل کا خبر پڑھنے والا یہ اطلاع خوشی خوشی بتاتا تھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ 22 کروڑ کے ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے مجموی طور پر تعداد پچاس ہوگئی ہے۔ اسے بھی چھوڑیں کوئی ڈھائی ماہ ہو چکے پولیو کے محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔ کوئی نیا کیس سامنے نہیں آ رہا۔ انسداد کے قطرے نہ پلائے جانے سے بیماریاں بڑھنے کی خبریں بھی نہیں آ رہیں۔ (یہ پڑھ کر کوئی خبر نہ بنا دے) پولیو کے رضا کاروں کو بھی کورونا وائرس کے خلاف مہم میں لگا دیا گیا ہے۔ ذرا سوچیں دراصل ہمارا دین ہمیں یہی حکم بار بار دیتا ہے۔ تدبر کرنے کو کہتا ہے۔ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرنے کو کہتا ہے اور ہم دین کے اس اہم حکم کو نظر انداز کر کے میڈیا کے شیطانی نظام کی غلامی کر رہے ہیں۔ وہاں سے جو حکم آتا ہے سب اسی پر عمل کرتے ہیں۔ دوسری بات قابل غور ہے۔ سوچنے کی بہت زیادہ ضرورت تو اس امر پر بھی ہے کہ 22 کروڑ کے ملک میں کسی بیماری میں کتنے لوگ مبتلا ہیں یہ اعداد وشمار بھی ہونے چاہئیں۔ لیکن ان اعداد وشمار کی کوئی بات نہیں کرتا۔ اگر یہ بتانا شروع کر دیں تو کورونا کی ہلاکت خیزی بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اب بحث ہی رہ جائے گی کہ کورونا وائرس ہے۔ فالج، دل کا دورہ، کینسر وغیرہ بیماریاں ہیں۔ لیکن یہ کیا حماقت ہے کہ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے احتیاطی اقدامات کرنے کے بجائے محض ممکنہ اعداد وشمار کی بنیاد پر پوری دنیا کو منجمد کر دیا جائے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ فلو سے ہونے والی ہلاکتیں ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہیں پاکستان میں تو بد قسمتی سے اعداد وشمار ہی نہیں ہیں۔ آج کل بھی کورونا کا ایک اور مریض ہاتھ آ گیا کے نام پر ٹی وی چینلز کے پاس زیادہ اعداد وشمار ہیں۔ حکومتی ترجمان باضابطہ اعداد وشمار جاری نہیں کر رہے یا صرف ٹی وی چینلز کو جاری کر رہے ہیں۔ بہر حال ہلاکتوں کے اعتبار سے فلو کے خلاف یہ احتیاط نہیں ہے جو کورونا کے خلاف ہے۔
مزید غور کیجیے کسی وزیر، بادشاہ، شہزادے وغیرہ کو پیٹ میں ہلکا سا مروڑ بھی اٹھے تو سیدھا آغا خان بھاگتے ہیں، بہترین اسپتال کا رْخ کرتے ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے۔ ملکہ برطانیہ بکنگھم پیلس سے ونڈ سر کیسل منتقل ہوگئیں جہاں سیکڑوں افراد کا عملہ ان کی ’’آئسو لیشن‘‘ (تہائی) میں دیکھ بھال کرے گا۔ سندھ کے وزیر سعید غنی کا ٹیسٹ مثبت آیا تو وہ سائوتھ سٹی یا آغا خان نہیں گئے گھر چلے گئے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل اسپتال نہیں گئی گھر چلی گئیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ صرف چیک اپ کرا کر آ گئے، کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو کی بیگم کا ٹیسٹ مثبت آیا لیکن وزیر اعظم کو صرف ٹیسٹ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ دنیا بھر میں نازک ترین طبقہ حکمرانوں کا ہوتا ہے لیکن اس طبقے کی نزاکت کے باوجود اسی طبقے کے شہباز شریف لندن سے پاکستان آئے تو پچاس افراد کے ساتھ پریس
کانفرنس کر ڈالی دو تین افراد کے پاس ماسک نظر آئے غالباً ایک کے چہرے پر تھا باقی نے منہ نیچے لٹکا رکھے تھے۔ کسی نے شہباز شریف کو پکڑ کر اسکریننگ نہیں کرائی، قرنطینہ نہیں بھیجا پریس کانفرنس میں شریک لوگوں کاکوئی ٹیسٹ نہیں ہوا، کہاں گیا حفاظتی نظام۔ یہی کام کسی عام آدمی نے کیا ہوتا تو پورے ملک میں اسے ڈھونڈنے کی مہم شروع ہو جاتی اسے چھان مارا جاتا اور نکال لیا جاتا… لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا کیونکہ عام آدمی اور خاص آدمی کے لیے قوانین الگ الگ ہیں۔ اب تک کسی نے اس معاملے پر شور نہیں مچایا بارہ کہو کا تو محاصرہ کر لیا گیا ہے کیونکہ کچھ لوگ وہاں آ گئے تھے۔ اس کے قریب شاہد خاقان عباسی بھی رہتے ہیں۔ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والوں کی تصویریں شائع ہو رہی ہیں کسی نے ماسک نہیں لگایا ہوا۔ یہ کورونا وی آئی پی لوگوں سے دور دور رہتا ہے اور جمعے کی نماز پڑھنے والوں کو لگتا ہے۔ ایک نے تو اتنی لمبی چھوڑ دی کہ اسلامی ممالک میں پاکستان سے کورونا پھیلا۔ اور اس خبر کا ذریعہ اسرائیلی اخبار ہرٹز تھا۔ خبر یہ تھی کہ غزہ کے علاقے میں دو فلسطینیوں میں کورونا وائرس پایا گیا ہے جو دو ہفتے قبل لاہور کے قریب رائے ونڈ تبلیغی اجتماع میں شرکت کر کے آئے ہیں۔ اخبار نے ان دونوں کے نام نہیں دیے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ غزہ کا محاصرہ کب ختم ہوا کب یہ لوگ کس راستے سے گئے اور کس راستے سے واپس آ گئے۔ اور فلسطین اور غزہ کو اسرائیلی اخبار اسلامی ممالک لکھ رہا ہے۔ اندازہ کریں اب تو اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون بھی بول پڑے۔ اب بھی لوگ اسے دیو مالائی کہانیاں قرار دیں گے کہ یہ وائرس انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے۔