فیض صاحب کی نظم سے آغاز کرتے ہیں:
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
23مارچ پورا پاکستان لاک ڈائون کردیا گیا ہے۔ ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے۔ اداسی ہی نے نہیں زندگی نے بھی بال کھول دیے ہیں۔ شاہراہیں اور بازار دیکھیں تو ایسے جیسے کوئی نیند میں گم خواب میں چل رہا ہو۔ ایسا لگتا ہے طویل سفر کی تھکن سے نڈھال دنیا سوگئی ہے یا پھر تھک کر چور چورہوگئی ہے۔ بات متاثرین کی تعداد کی نہیں انسانی وجود خطرے میں ہے۔ زندگی کے پتے زرد ہورہے ہیں۔ نہ جانے کب کون شاخ سے جدا ہو جائے۔ کورونا نے سب کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ کب ’’فائر‘‘ کی آواز گونج اٹھے، کچھ پتا نہیں۔ ان پُر اذیت لمحات میں برسوں سے گم چیزیں یادوں میں آتی چلی جارہی ہیں۔ گزرے ماہ وسال، چپہ چپہ بکھری یادیں، یادوں کی خلائوں میں بسے ہوئے لوگ۔ نئی دنیا، ایجادات کی دنیا، نت نئے ہنگاموں کی دنیا کتنی بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ کورونا کا ظہور دیکھیں تو ایسا لگتا ہے زمین کی تہوں میں دبا کوئی صدیوں پرانا صندوق کھلا اور اس میں سے ان گنت بدروحیں جن پر وبا کے کانٹے ہی کانٹے ہوں نکل کر آناً فاناً پوری دنیا میں بکھر گئی ہیں۔
اس نارنگی جیسی گول دنیا میں کتنے کانٹے ہیں زندگی پھر بھی جیسے تیسے گزرہی رہی تھی لیکن اس کانٹوں بھرے وائرس نے تو زندگی کو دھڑام سے فرش پر دے مارا ہے۔ کوئی چیخ سننے والا، پرسہ دینے والا اور نہ قبر میں اتارنے والا۔ زندگی دوبارہ اسی مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں سے چلی تھی۔ اکیلی اور تنہا، بقا کی جنگ لڑتی ہوئی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا اور کیمسٹ کی لیبارٹری، دعائیں کتنی سمٹ گئی ہیں۔ کوئی ہے جو اس وبا کو روک سکے جو دنیا پر پنجے گاڑ چکی ہے۔ خشک کھانسی اور بخار کا خوف تیز بو کی طرح لوگوں سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ زندگی کبھی اتنی ناقابل اعتبار نہیں تھی۔ بے انت زندگی ٹھیر گئی ہے۔ آگے بڑھنے کے جذبات اس وبا سے نکل جانے کے بعد پر موقوف ہوکررہ گئے ہیں۔ آج کورونا دنیا میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ بن گیا ہے۔ زندگی کے ترنم اور گیتوں میں اس لفظ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ ویرانوں، سناٹوں، دکھوں اور موت کا مترادف لفظ ہے۔ تازہ ہوا کے بجائے زندگی ایسے کمرے میں مقید ہوجانے پر مجبور کردی گئی ہے جس میں کوئی روزن نہ ہو، کھڑکی نہ ہو دروازہ نہ ہو۔ قرنطینہ۔۔ خاموشی اور خوفناک اکیلے پن میں موت کا سکوت۔
سبھی بھرم اور خواب وخیال ختم ہورہے ہیں۔ وہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی پر بہت نازاں تھے۔ موجودہ عہد کو انسانی ترقی کی معراج سمجھتے ہوئے end of the history کے نعرے بلند کررہے تھے ایک حقیر جرثومے کے آگے بے بس ہیں۔ وہ جو دنیا کے چپے چپے پر حکمرانی کے دعویدار تھے، سیٹلائٹس پر نازاں تھے کہ دنیا کا کوئی گوشہ ہماری اسکرینوں سے چھپا نہیں۔ آج وہ امریکی قیادت پینٹا گون میں چھپنے پر مجبور ہے۔ وہ جو عیش وطرب کے خارزاروں، سینما گھروں، نائٹ کلبوں، رقص گاہوں، شراب خانو ں، کیسینوز اور جنسی بے راہ روی کو آزادی قرار دیتے تھے اور پابندی تو کجا برا کہنے کو بھی اپنی آزادی میں مداخلت قرار دیتے تھے آج از خود انہیں بند کررہے ہیں۔ لاس ویگاس میں دنیا کا سب سے بڑا جواخانہ بند ہے۔ جسم فروشی کے وہ اڈے بند ہیں جن کی زنا کی کمائی دس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ تھی۔ وہ جو سود کی شرح کو تجارتی پیمانہ سمجھتے تھے شرح سود کو کم یا صفر کرنے پر مجبور ہیں۔ دو ہفتوں میں امریکی اسٹاک ایکس چینج میں 16ٹریلین ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ ٹرمپ یوم دعا منارہا ہے۔
’’اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتاردیں پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں (سورۃ الشعرا آیت: 4)‘‘۔
وہ جومرد اور عورت کے اختلاط، بے راہ روی اور بوسہ بازی حتی کہ سرعام بوسہ بازی کو معیوب نہیں سمجھتے تھے آج اسے ترک کررہے ہیں۔ خاندان اور گھر عہد حاضر میں سب سے کم توجہ اور رغبت کے ٹھکانے تھے آج سب کی پناہ گا ہیں ہیں۔ وہ جو کھانے پینے میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے تھے، حلال وحرام میں فرق کرنے پر مجبور ہیں۔ سراپا تسلیم کہ درندے، شکاری پرندے، خون، کیڑے مکوڑے اور دیگر وہ چیزیں جنہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے صحت کے لیے تبا ہ کن ہیں۔ عالمی ادارہ صحت معترف کہ شراب پینا انتہائی مضر ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا کو مقتل بنادیا ہے، عدم تحفظ کا ایسا ماحول تخلیق کردیا ہے کہ تمام ممالک بجٹ کا بڑا حصہ جنگی سازوسامان پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں آج فوجی بجٹ کا ایک تہائی حصہ صحت کی طرف منتقل کرنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ آج دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ جب اپنی جان پر بنتی ہے تو کیا حالت ہوتی ہے۔ آج دنیا کشمیر اور غزہ کے لاک ڈائون کا بہتر ادراک کرسکتی ہے۔ زندگی اور آزادی چھیننا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، آج دنیا شام، عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی پر مصیبت، سر گرداں اور تکلیف دہ زندگی کا زیادہ بہتر احساس کرسکتی ہے۔
وہ نظام جو عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے کے نعرے پر صدیوں سے دنیا پر مسلط رہا ہے، کورونا نے اسے ایکسپوز کردیا ہے۔ ثابت کردیا ہے کہ عوام کی حفاظت جمہوری ممالک کی ترجیحات میں کہیں تھی ہی نہیں۔ حکمران طبقے کے پاس قومی یکجہتی کا راگ الاپنے کے سوا غریبوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سرمایہ دار حکومتیں چند دنوں کے لیے بھی اپنے عوام کا پیٹ بھرنے پر تیار نہیں۔ بیش تر ملکوں کے صحت کے شعبے جواب دے چکے ہیں۔ جب یہ بیماری چین، ایران، یورپ اور امریکا کے بعد افریقا کے کیمپوں، کچی بستیوں اور جھونپڑ پٹیوں بھارت اور لاطینی امریکا تک پہنچے گی تو ہلاکتوں کی تعداد کتنی ہوگی سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ نج کاری کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے۔ نجی اسپتال اس آفت کے وقت بھی انسانیت اور اپنے عوام سے دور محض پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے منافعوں پر ذراسا سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں۔ کورونا نے ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک لا متناہی فساد ہے جس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ کورونا اس نظام کی بدنیتی کی سزا ہے۔