ڈاکٹر خالد مشتاق
اکبر اور بیربل کا قصہ سب نے سنا ہوگا۔ جلال الدین اکبر ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ اس کے دربار میں ایک عقل مند فرد تھا۔ جس کا نام بیربل تھا۔ ایک دن بادشاہ پھل کاٹ رہا تھا۔ بادشاہ کے انگوٹھے میں چھری لگی۔ زخم سے خون بہنے لگا۔ بیربل نے کہا اوپر والا جو کرتا ہے اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے بیربل کو دربار سے کچھ عرصے کے لیے نکال دیا۔ بادشاہ نے کہا جب تک یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ تم نے جو کہا وہ درست ہے تمہیں دربار میں آنے کی اجازت نہیں۔ چند دن بعد بادشاہ شکار پر گیا طوفان آگیا، گھوڑے بدک گئے، بادشاہ کا گھوڑا جنگل میں دوڑتا گیا۔ اور اکیلا ایک ایسی جگہ جا نکلا جہاں جنگلی لوگ رہتے تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو پکڑ لیا اور اپنی دیوی کی قربانی دینے لگے۔ قربانی سے پہلے انہوں نے بادشاہ کے جسم کا معائنہ کیا تو اس کے انگوٹھے پر زخم تھا۔ بادشاہ کو انہوں نے چھوڑ دیا کہ ہم نقص والے کی دیوی پر قربانی نہیں دیتے۔
بادشاہ واپس آگیا۔ دربار میں پہنچا۔ اس نے بیربل کو بلایا۔ کہا تم نے کیا کہا تھا۔ اس سے پہلے بادشاہ کے غائب ہونے جنگلی قوم کے ہاتھ لگنے کا واقعہ مشہور ہوچکا تھا۔
بیربل نے کہا اگر آپ کے یہ زخم نہ لگا ہوتا تو جنگلی لوگ آپ کو قربان کردیتے۔ اگر آپ نے مجھے دربار سے نہ نکالا ہوتا تو میں آپ کے ساتھ ہوتا اور جنگلی مجھے قربان کر دیتے۔ اس لیے آپ نے دربار سے نکالا تو میں نے کہا تھا اوپر والا جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ یہ واقعہ مجھے کورونا وائرس کی موجودہ شکل کے دنیا میں پھیلنے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر یاد آیا۔ کورونا کے خوف نے لوگوں کو کھانسنے، چھینکنے، تھوکنے، کا سلیقہ سکھا دیا۔
1992ء میں اوجھا اسپتال برائے امراض سینہ و ٹی بی سے امراض سینہ کے مریض دیکھنا شروع کیے۔ ہماری سینئر ڈاکٹر شاہینہ قیوم صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ اگر میں قوم کو کھانسے، چھینکنے اور تھوکنے کا طریقہ آجائے تو 70 فی صد سے زیادہ سانس کی بیماریاں کنٹرول میں آجائیں گی۔ اوجھا اسپتال میں ہم ٹی بی کے مریض کو سکھاتے ہیں کہ کھانستے اور چھینکتے ہوئے تولیاں منہ پر رکھیں۔ نزلہ کھانسی کے تمام مریض بھی کھانستے اور چھینکتے ہوئے تولیہ، رومال، بڑا ٹشو پیپر منہ پر رکھیں۔ اگر یہ نہ کرسکیں تو اُلٹے ہاتھ کو کہنی سے موڑیں اور منہ پر رکھ لیں، پھر کھانسیں یا چھینکیں۔ چھینک اور کھانسی کی رفتار 150 سے 200 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس تیز رفتاری کے ساتھ ناک اور منہ سے پانی کے باریک قطرے نکلتے ہیں جن میں جراثیم اور وائرس ہوتے ہیں۔ نزلہ سیکڑوں قسم کے وائرس سے پھیلتا ہے، یہ وائرس چھینکنے والے کے جسم سے تیزی سے نکل کر فضا میں معلق ہوتے ہیں۔ اور قریب میں موجود اشیا کے اوپر بھی گرتے ہیں۔ اسی لیے بتایا جاتا تھا کہ نزلہ ان جگہوں کو ہاتھ لگانے سے پھیلتا ہے۔
گھر یا آفس کا فون۔ دروازے کا ہینڈل۔ باتھ روم کے نلکے۔ بس، کار، رکشہ یا کوئی بھی ٹرانسپورٹ جس میں سوار ہوتے ہیں۔ اس کی سیٹ، ڈنڈے وغیرہ کو ہاتھ لگنے سے۔ فون سننے والی ہینڈ فری جو کئی افراد استعمال کرتے ہوں۔ آفس کے کمپیوٹر جو کئی لوگ استعمال کرتے ہوں۔ آفس کی ٹیبل، بینک کے کائونٹر، بل جمع کراکر وصول ہونے والی رسید۔ کرنسی نوٹ، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ کس کس نے نوٹ کو ہاتھ لگایا ہے اور اس پر کتنے جراثیم اور وائرس لگے ہوتے ہیں۔
نزلہ زکام سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ چھینکتے کھانستے ہوئے احتیاط کریں۔
بار بار ہاتھ دھوئیں۔
باہر سے آکر ہاتھ دھوئیں۔
آفس میں جائیں تو ہاتھ دھو کر اپنا کمپیوٹر استعمال کریں۔
کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے بعد ہاتھ دھوئیں۔
کیش کائونٹر والے اور رقم وصول کرنے والوں کے لیے بار بار ہاتھ دھونا ممکن نہیں۔
وہ کام ختم کرکے ہاتھ دھوئیں۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ منہ، کان، آنکھ، ناک کو ہاتھ لگاتا ہے۔ کوشش کریں کہ ہاتھ کی پچھلی طرف سے منہ کو ہاتھ لگانے اور کھجانے کی عادت ڈالیں۔ دروازہ کہنی سے کھولیں یا پائوں سے دھکا دیں۔ ہاتھ کی پچھلی طرف سے منہ کو ہاتھ لگانے کی عادت سانس کی نالی کے پہنچانے والے وائرس (جراثیم) سے بچاسکتی ہے۔ تھوکنا ہو تو واش روم کے بیس یا ٹشو پیپر میں لے کر ضائع کریں۔
یہ باتیں مریضوں کو، ان کے لواحقین کو بار بار بتائی جاتی تھیں لیکن کوئی عمل کرنے کو تیار نہ تھا۔ کورونا وائرس نے جو دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے مشہور ہوا۔ معاشرے میں یہ شعور پیدا کردیا ہے کہ کھانسنے، چھینکنے کا طریقہ کیا ہے۔ بار بار ہاتھ کو دھونے کی اہمیت کیا ہے۔ وائرس کس طرح میز، کرسی، دروازے، ٹرانسپورٹ کی سیٹوں وغیرہ سے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سے بچیں۔
اہم بات اللہ کے آخری نبیؐ نے 1400 برس پہلے کھانسنے، چھینکنے، تھوکنے کا طریقہ بتایا تھا۔ بار بار ہاتھ منہ دھونے کی تلقین کی تھی (وضو)۔ لیکن مسلمان بھی آپؐ کی تعلیمات پر جو سادہ انسانوں کی صحت کے لیے تھیں عمل نہیں کررہے تھے۔ کورونا وائرس نے لوگوں کو نبیؐ کی سنت سے قریب کردیا۔
لوگ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ بار بار ہاتھ منہ کی صفائی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اگر ہم اللہ کی رحمتوں پر رحمت والے اسٹائل سے توجہ نہیں دیں گے تو آسمان والا جو ہم سے ہماری ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے، اپنی کسی چھوٹی سے مخلوق جو آنکھ سے بھی نہ نظر آئے کے ذریعے انسانوں کو ان عادتوں کی طرف لے آئے گا۔ جو فرد کی انفرادی صحت اور معاشرے کی اجتماعی صحت کے لیے ضروری ہے۔ شکریہ کورونا۔ تمہارے خوف سے قوم باشعور ہو کر اچھی عادات اپنا رہی ہے۔