صبح دھونا ہاتھ کا اور شام دھونا ہاتھ کا

435

عطا محمد تبسم
آپ سے کیا گلہ کریں۔ گلہ تو اپنے آپ سے ہے۔ ٹک کے جو نہیں بیٹھا جارہا۔ اب گھومنے پھرنے کی عادت کوئی چار دن کی تو ہے نہیں۔ اس لیے ٹکتے ٹکتے ہی تو ٹیکیں گے۔ ابھی تو وہم کے مرض نے دل و جان کو قابو کیا ہوا ہے۔ ایک ہی کام ہے، صبح دھونا ہاتھ کا اور شام دھونا ہاتھ کا۔ لیکن اب یہ صبح شام سے نکل کر ہر وقت کا ہاتھ دھونا ہوگیا ہے۔ کبھی اس مرض وہم میں اہلیہ مبتلا تھیں۔ اب سارے اہل خانہ ہیں۔ پہلے ہم کہتے تھے۔ آپ کو کچھ وہم ہوگیا ہے، اور اس وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ اب ہم سے کہا جارہا ہے۔ آپ تندرست ہیں۔ ماشا اللہ بھلے چنگے ہیں۔ دنیا جہاں کی نعمتوں سے سرفراز ہیں۔ لیکن یہ ہاتھ دھونے کا مرض ہے کیا؟ اور اس مرض کی دوا کیا ہے؟ اور اگر یہ مرض لادوا آپ کو لاحق ہوگیا ہے تو اللہ شافی، اللہ کافی کا ورد کریں۔ اور کسی طبیب سے رجوع کریں۔ ورنہ گھر کے کونے کھدرے میں منہ ڈال کر اس بات کو زور زور سے اپنے آپ سے کہیں۔ میں ٹھیک ہوں، میری صحت اچھی ہورہی ہے۔ میں تندرست ہورہا ہوں۔ آج کل سب طبیب بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ ڈرے ڈرے سے کمروں میں بند ہیں۔ نہ کسی کو ہاتھ دیتے ہیں اور نہ کسی کا ہاتھ لیتے ہیں۔ پہلے تو لوگ ایسے پائے کے تھے۔ کہ جب سے لیا ہاتھ تیرے ہاتھ میں۔ میں تو ولی بن گیا اک رات میں۔ لیکن چچا غالب نے ہمارے ولی بنے کی راہ بھی مسدود کردی۔ اور شرط لگا دی کہ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔
یہ چھوٹا سا ایک جرثومہ ہے۔ لیکن ساری دنیا کو نچا کر رکھ دیا ہے۔ اس کا علاج بھی ہاتھ کی صفائی وہ بھی صابن سے کرنے میں ہے۔ اس لیے کہتے ہیں، کرونا صفائی، کرونا صابن سے، لیکن ذہنی رو ہے کہ ایک اور طرف لیجاتی ہے۔ اب ’’کرونا…!‘‘ بمباری کلسٹر بموں سے۔ وہ جو ساری بموں کی ماں تھی کہاں گئی، کہاں ہے وہ سپر طاقت اور کہاں ہے تمہارا ورلڈ آرڈر۔ کہاں ہے تمہارے جراثیمی ہتھیار سے محفوظ رہنے والے غلاف اور ماسک، کہاں ہے تمہاری سپر ٹیکنالوجی، معصوم بچوں کی آہ نے تمہیں گھیر لیا ہے، ابھی تو تم بلیک امریکن سے معافی مانگ رہے ہو، انہیں غلام بنانے کی، ان کے انسانی حقوق سلب کرنے کی، انہیں مساوی حقوق نہ دینے کی، انہیں ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی، لیکن وہ دن بھی نزدیک ہیں۔ جب تمہیں معافی مانگنی پڑے گی، ان مظلوم افغانیوں سے، عراقیوں سے، شام سے، ایران سے اور جہاں جہاں تم نے انسانیت پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ تم اس زمین کے فرعون بن کر اس دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے نا اور اس ظلم میں
سارے یورپی ممالک تمہارے ہم نوا تھے۔ تم نے انسانوں کو گونتا نامو بے میں پنجروں میں محصور کرکے رکھا تھا ناں، آج تم گھروں کے پنجروں میں، قرنطینہ کے پنجروں میں قید ہو، خدا کی آخری کتاب کی بے حرمتی کی تھی ناں، انسانوں کو جانوروں کی طرح گھسیٹا تھا ناں آج تمہاری لاشوں کو کتوں بلیوں کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر لیجایا جارہا ہے۔ مظلوم انسانوں کو بمباری سے مارکر ان کی لاشوں کو بے گور کفن چھوڑ دیا تھا ناں، انہیں گڑھوں اور خندوقوں میں اجتماعی طور پر دفن کردیا تھا ناں، آج تم بھی اس عذاب سے گزر رہے ہو، تمہارے گلی کوچوں میں لاشیں اٹھانے والے نہیں ہیں۔ انہیں دفن کرنے والے نہیں ہیں، ان کی مذہبی رسوم ادا کرنے والے نہیں ہیں۔ انہیں گڑھوں میں پھینکا جارہا ہے، انہیں اکھٹا کرکے پٹرول ڈال کر جلایا جارہا ہے، یاد کرو، تم نے کتنے انسانوں کو زندہ پٹرول چھڑک کا جلادیا تھا۔ اللہ جسے تم بھول چکے تھے، اب کیوں یاد آرہا ہے، یہ سڑکوں پر کیوں سجدے میں گرے آہ وزاریاں کر رہے ہو۔ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوتا ہے۔ تم نے تو شاید کبھی ایسا سوچا بھی نہ ہوگا۔ دیکھو وہ تمہاری شہ رگ سے کتنا قریب ہے۔
اللہ کی سنت ہے، جب اس کا عذاب آتا ہے تو پھر وہ اپنے نیک بندوں کو بھی سزا دیتا تھا۔ کیونکہ اللہ اس معاملے میں غیرت مند ہے کہ اس کے احکامات کی دھجیاں بکھری جائیں، اور اس کے نیک بندے خاموش رہیں، وہ معاشرے میں پھیلی چور بازاری کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہیں، جب معصوم بچے اور بچیاں جنسی دیوانوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جائیں اور وہ انہیں جب چاہیں توڑ مروڑ کر پھینک دیں، جب معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا جائے، جب بڑے بڑے سپر اسٹور دولت کی ہوس میں اندھے ہوجائیں اور انسانی جان بچانے والی دوائیں، حفاظتی جراثیم کش لوشن، ماسک چھپانے لگیں اور مہنگے داموں بیچنے کی ہوس میں مبتلا ہوجائیں، جب خوراک کے ذخیرہ اندوز بلیک مارکیٹنگ پر سینہ سپر ہوجائیں۔ جب ملاوٹ کا بازار گرم ہو، جب کم تولنا، جھوٹ بولنا، مکر وفریب کاری کرنا ایک آرٹ بن جائے۔ جب اللہ کے احکامات کو چیلنج کیا جائے، اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ جس ریاست کو اس کے نام اور اس کے قانون نافد کرنے کے لیے بنایا جائے۔ وہاں اس وعدے کو بھول جایا جائے۔ سارے احتیاط اپنے پاس رکھو، لیکن رات کے پچھلے پہر ذرا سربسجود ہوکر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوکر اپنے گناہوں پر شرمسار تو ہو، توبہ کا جو در کھلا ہے، اس کے در پر پیشانی تو رگڑو۔ اس سے عفو اور معافی تو مانگو۔ یہی معافی یہی ندامت شاید ہمارے گناہوں کی سیاہی کو دھو ڈالے اور اللہ ہم پر سے اس آفت کو ٹال دے۔