صدقہ کریں پبلسٹی نہیں

715

غازی عرفان خان
اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ ایسا کوئی بھی دن نہیں جس دن یہ خبر نہ ملتی ہو کہ آج فلاں ملک میں اتنی اموات ہوئیں، فلاں ملک سے اتنے نئے افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اب تو پوری دنیا ایک قیدخانہ بن چکی ہے۔ ہر سو موت کا عالم چھایا ہوا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اس دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح اس وبائی بیماری سے چٹکارا پایا جائے۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر رہا ہے۔ کاروباری ادارے، فیکٹریاں، گاڑیوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اس قید (LOCKDOWN) کی وجہ سے غریب طبقہ بہت متاثر ہوا ہے۔ جو شخص دن کو کماتا اور شام کو اپنے اہل و عیال کو کھلاتا تھا آج وہی شخص لوگوں کے سامنے ہاتھ پھلانے پر مجبور ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے بچے بھوکے ہی سوتے ہوں۔ ان مشکل حالات میں ہمیں ان جیسے لوگوں کی مدد کے لیے سامنے آنا ہوگا۔
الحمدللہ! بہت سے لوگ ان مشکل حالات میں ان لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں یہ کام اللہ کی رضا اور اجر و ثواب کی نیت سے کرنا چاہیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہے جن کے کاموں میں ریا صاف نظر آتاہے۔جِسے آپ لوگوں نے بھی ملاحظہ کیا ہوگا کہ پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر وہ اپنے صدقات کی نمائش کر رہے ہیں۔سیلفی اور ویڈیو بنا کر فیس بک، واٹس ایپ پر اپلوڈ کرتے ہیں۔
ہمارے ملک، ریاست، گائوںیا محلے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس وقت پریشان ہوںگے، جن کو کھانے کے لیے گھر میں کچھ نہیں ہوگا اور خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوںگے۔ مگر وہ لوگوں سے مدد لینے کے لیے ڈر رہے ہیں جس کی وجہ یہی نمائش اور پبلسٹی ہے۔وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جو لوگ ہماری ایک ہاتھ سے مدد کریں گے وہیں دوسرے ہاتھ سے سیلفی لے کر اس کی پبلسٹی کریں گے۔انہیں بھوک سے زیادہ تکلیف اس پبلسٹی سے ہوتی ہیں۔ صدقہ دینے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ ہم ان کی مدد کر رہے ہیں یا پبلسٹی کر کے ان کو معاشرے میںذلیل کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مدد کرتے وقت اخلاص کا ہونا لازمی ہے۔ صدقہ اجرو ثواب کی نیت سے کرے ۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی ریا ہوگا تو یہ نیکی ضائع ہوجائے گی۔اخلاص کے بجائے ایسی مذموم اور فاسد نیت سے نہ صرف یہ نیکی ضائع ہوجاتی اور بندہ اجروثواب سے محروم رہ جاتا بلکہ یہ شدید عذاب الٰہی کا بھی باعث ہے۔
مولانا محمد عابد ندوی ریا کے بارے میں لکھتے ہیں،ـریاکاری، نام ونمود اور شہرت کاجذبہ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق وکردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میںاس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ اللہ کے لیے کرے، اس کادل اخلاص و للہیت کے جذبے سے معمور ہو، اس کا مقصد عمل صالح سے اللہ کی رضا جوئی اور خوشنودی کا حصول ہو نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں اپنے کو بڑا ظاہر کرنا یا ان کی تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے، اسے وہ نیکی ہر گز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو، ریا کاری، اخلاص کے منافی اور اس کی ضد ہے۔
قرآن پاک میں جابجا ریا کی مذمت بیان ہوئی ہے، اسے باعث عذاب اور نیکی کو ضائع کرنے والا عمل قرار دیا گیا،یعنی جس نیکی میں بھی ریا شامل ہوجائے وہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے، اللہ کے یہاں شرف قبولیت نہیں پاتی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! احسان جتاکر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو، اس شخص کی مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیںرکھتا، ایسے شخص کی تمثیل یوں ہے کہ ایک چٹان ہو، جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ پڑے اور وہ اس کو بالکل سپاٹ پتھر چھوڑ جائے۔ان کی کمائی میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گا اور اللہ ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا۔ ( البقرۃ: 264)۔
وہیں دوسری طرف صدقہ کرنے والوں کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا، جس میں ایک صدقہ کرنے والا بھی ہے، فرمایا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ وہ بھی اللہ کے سایے میں ہوگا۔ ( ابو ہریرہـؓ: بخاری) اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہے: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اپنے اس انفاق کے پیچھے نہ احسان جتاتے، نہ دل آزاری کرتے، ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ تو ان کے لیے کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ( البقرۃ: 262)۔