ٹائیگر فورس کس لیے؟

416

وزیر اعظم مسلسل اپنی بات پر اَڑے ہوئے ہیں اور ملک کو مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی بات میں لاکھ وزن سہی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب تک دنیا کے سامنے اس وبا سے بچ رہنے کا جو طریقہ کار سمجھ میں آیا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پورے ملک کو لاک ڈاؤن کردینا نہ تو کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی ملک و قوم کو قابلِ قبول ہو سکتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہ دے رہا ہو تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ جو بھی راستہ نظر آ رہا ہو اس پر تا دیر چلتے رہنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہونا چاہیے۔
شدید سیلابی صورت حال میں لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھنا شروع ہوجاتے ہیں یا پھر محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بے شک یہ سب عارضی پیش بندیاں ہی ہوتی ہیں۔ مال و اسباب سے کہیں زیادہ جان بچانا ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا پوری دنیا کو سامنا ہے جس کا پہلا حل یہی ہے کہ جس طرح بھی ہو پہلے جان بچائی جائے۔ اس وقت پوری دنیا کیونکہ ایک ساتھ اللہ کی آزمائش کا شکار ہو چکی ہے اس لیے فی الحال دنیا میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں بچا جس کی جانب ہجرت کی جا سکے اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ ہر فرد کا اپنا گھر ہی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے۔
وزیر اعظم کے خدشات کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن جب کوئی دوسرا حل ہی نہ ہو تو پھر لوگوں کو کسی ذہنی الجھن میں ڈالنا کسی بہت بڑے خلفشار کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ خود وزیر اعظم اس بات کے قائل ہیں کہ اس وقت گھر سے زیادہ محفوظ اور کوئی مقام نہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ لوگوں سے یہ چاہ رہے ہیں کہ ملک کے تمام عوام از خود اپنی مرضی و منشا سے گھروں میں ہی قیام کریں۔ ان کی تقریر میں اس بات کا بار بار دہرایا جانا کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے باہر قدم نہ نکالیں، اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خود ان کے نزدیک فی الحال کوئی اور راستہ نہیں۔
وزیر اعظم جس چین کی مثال نہایت فخر کے ساتھ بیان کرتے نظر آ رہے ہیں اس چین کی طرح کسی ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھیڑیا صفتی کا مظاہر نہیں کر سکتے۔ جس ووہان کے لاک ڈاؤن کا وہ حوالہ دیتے ہیں اس ووہان کو چاروں جانب سے گھیر کر رکھا گیا تھا اور کسی بھی انسان کو دیکھ کر گولیوں سے اڑا دیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس شہر میں جو جو بھی کورونا کا شکار تھا ان کو گھروں کے اندر سے گھسیٹ گھسیٹ کر لیجایا جاتا تھا اور ان کو دہکتے الاؤ میں پھینک دیا جاتا تھا۔ وہاں آج بھی علاج دواؤں سے نہیں موت سے کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ان کے پاس کسی کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں۔ جو اپنے عوام کا علاج دواؤں سے نہیں کر سکے اور اب تک کسی بھی قسم کی دوا ایجاد کرنے میں ناکام ہیں کیا آپ ان سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس عذاب الٰہی پر قابو پا سکیں گے یا پھر عوام کے علم میں لائے بغیر دفنا دینے کے بہانے ان کو دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونکتے رہیں گے۔
یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ وزیر اعظم کی نظر میں ’’لاک ڈاؤن‘‘ کی تشریح کیا ہے۔ ریل گاڑیاں بند، بسیں بند، ملیں بند، کارخانے بند، شہروں اور دیہاتوں کے بازار اور دکانیں بند، دفاتر بند، اسکول بند، کالج بند، یونیورسٹیاں بند، مساجد بند، جمعہ کی نمازوں کے اجتماعات بند، شادی ہال
بند، ہر قسم کی مذہبی تقریبات بند اور افراد کا گھر سے نکلنا تک بند تو پھر لاک ڈاؤن کس چڑیا کا نام ہے۔ جب پورا پاکستان ہی بند ہے تو لوگوں کا بیباکانہ گلیوں، بازاروں، شاہراہوں اور بازاروں میں نکلنا کیا جواز رکھتا ہے۔ اگر ان تمام بندشوں کے باوجود بھی افراد چوک چوراہوں پر گھومتے پھرتے نظر آئیں تو کیا ان کو اپنی بیماریاں تندرست انسانوں کے جسموں میں منتقل کرنے کے سر ٹیفکیٹ دیدینے چاہئیں؟۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ تمام افراد جن کے کھانے پینے کا انحصار روز کی دہاڑی پر ہی ہوا کرتا تھا وہ کیا کریں گے تو ہم نہایت ادب کے ساتھ یہ پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ پھر حکومت کس مرض کی دوا ہے۔ جب ہر قسم کے ترقیاتی کام بھی رکے ہوئے ہوں، باہر سے امدادوں کی بارش بھی ہو رہی ہو، ڈالرز اور پونڈز بھی برس رہے ہوں، بیشمار ٹیکس لگا کر عوام کا خون بھی خوب خوب نچوڑا جا چکا ہو، مہنگائی کو آسمان کی بلندی پر پہنچا کر غریبوں کے خون کے ایک ایک قطرے سے خراج بھی وصول کیا جاتا رہا ہو، کرپشن کی روک تھام کے نتیجے میں یومیہ بارہ ارب روپوں کی بچتیں بھی بینکوں میں جمع ہوتی رہی ہوں اور بقول حکومت ایکسپورٹ امپورٹ کے مقابلے بڑھ چکی ہو تو پھر کیا جمع شدہ کھربوں روپے اس لیے ہیں کہ وہ آج مشکل وقت میں غربا کے کام آنے کے بجائے بینکوں میں جمع عوام کا منہ چڑاتے نظر آئیں اور آپ یہی دہائیاں دیتے نظر آئیں کہ ہمارے پاس غریبوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مجھے یہ بات بھی بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی کہ آخر عمران خان صاحب کو ٹائیگر فورس بنانے کی ضرورت کس لیے محسوس ہو رہی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں نجانے کتنی ایسی تنظیمیں ہیں جو لوگوں کی خدمت بلا کسی غرض کرتی نظر آ تی ہیں۔ پاکستان کی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں ان کی پہنچ نہیں۔ ان میں کچھ سیاسی جماعتوں کے تحت چلتی ہیں، کچھ مذہبی جماعتوں کے ماتحت ہیں اور کچھ کا کسی بھی قسم کی سیاست یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے اسپتال، لنگر خانے، فلاحی ادارے، بھاگتی دوڑتی ایمبولینسیں، میت گاڑیاں اور متعدد دواؤں اور غذاؤں کے مراکز دن رات لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ یہ سب پاکستان کی ٹائیگر فورسیں ہی تو ہیں۔ کیا ان سب کی کار کردگی آپ کے سامنے نہیں، کیا اس کڑے وقت میں بھی آپ سیاسی لحاظ سے یہی چاہتے ہیں کہ یہ امدادی کام آپ کی سیاسی ٹائیگر فورس کے ہاتھوں ہی انجام پائے، کیا اس مشکل گھڑی میں آپ اپنے اور اپنے کارندوں کے علاوہ کسی کو بھی قابلِ بھروسا ماننے کے لیے تیار نہیں اور آپ کی نظر میں آپ، آپ کی پارٹی اور آپ کے رضاکاروں کے علاوہ کوئی اور پاکستان کا مخلص نہیں۔ وزیر اعظم صاحب! یہ ساری تنظیمیں فرشتوں کی تو بیشک نہیں لیکن کیا آپ ایسی تنظیموں کی نیت پر کوئی بھروسا نہیں کر سکتے جو حکومت کی توجہ کے بغیر بھی نجانے کتنے بے سہارا، بن ماں باپ، یتیم اور مسکین بچوں کی پرورش کرنے کے علاوہ بنا کسی لالچ فلاحی ادارے چلا رہی ہیں۔ آپ ٹائیگر فورس بنانے کے بجائے جس رقم کو غربا کے لیے مختص کر چکے ہیں وہ بلا تاخیر ان ساری تنظیموں کے حوالے کریں اور پھر دیکھیں کہ ملک میں کوئی ایک بھی بھوک کے ہاتھوں کیسے پریشان نظر آتا ہے یا نہیں۔ امید ہے کہ اس کڑے وقت میں کوئی بھی نیا تجربہ کرنے کے بجائے آپ پہلے سے موجود ’’ٹائیگروں‘‘ کو خدمت کا موقع دیں گے جو اب بھی آپ اور حکومت پاکستان کی مدد کے بغیر پورے ملک میں بے غرض ہو کر پوری تن دہی کے ساتھ مجبوروں کی خدمت میں رات دن مصروف ہیں۔