عائلی زندگی کی اسلامی قدریں

348

محی الدین غازی

عائلی زندگی خوشی اور خوش اسلوبی کے ساتھ گزاری جائے، یہ اسلام کے اہم مقاصد میں شامل ہے، دین میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن مجید میں اسے اللہ کے حدود کی اقامت قرار دیا گیا ہے۔
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے محبت کا پیکر بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے ہم درد اور غم گسار ہوں، دونوں ایک دوسرے کے پاس سکون اور چین پائیں، دونوں ایک دوسرے کے ذریعے اپنی تکمیل کریں، یہ انسانوں کے خمیر میں رکھا گیا، یہ نہیں ہو تو اس کا مطلب کوئی خرابی ہے، جسے دور کرنا ضروری ہے۔ فرمایا:
’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان مودت اور رحمت رکھ دی، بلاشبہ اس میں نشانیاں ہیں غور وفکر کرنے والوں کے لیے‘‘۔ (الروم:21)
عائلی زندگی کی بہترین صورت گری کے لیے قرآن مجید میں بہت سے احکام دیے گئے، اور احکام کے پہلو بہ پہلو بہت سی قدریں بھی سجا کر رکھ دی گئی ہیں۔
حقیقت میں عائلی زندگی کی خوش گواری قانونی احکام سے کہیں زیادہ قدروں کی پاس داری پر منحصر ہوتی ہے۔ عائلی زندگی میں قدروں کا دخل جتنا زیادہ ہوگا، زندگی اتنی ہی زیادہ پرلطف اور سہج گزرے گی۔ اور اگر عائلی زندگی قدروں سے خالی رہے گی تو رشتے اور تعلقات اندیشوں اور خطروں سے دوچار رہیں گے، اور زندگی مشکلات ومسائل میں گرفتار ہو کر رہ جائے گی۔ عائلی زندگی کو موضوع بنانے والے کسی نظریۂ حیات کی خوبی اس میں ہے کہ وہ عائلی زندگی کو کتنی زیادہ قدروں سے آراستہ کرتا ہے۔ یہی نہیں، درحقیقت قانونی احکام بھی اسی وقت خوبی سے متصف ہوتے ہیں جب وہ اعلی اقدار سے ہم آہنگ، اور ان کی نمود کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
باہمی رضا مندی
باہمی رضا مندی بہت اعلی قدر ہے، یہ انسان کو احساس دلاتی ہے کہ اس کے وجود اور اس کے ارادے کا احترام کیا جارہا ہے۔ جو معاملات باہمی مصالح اور مفادات پر مشتمل ہوں، انھیں یک طرفہ طور سے کسی ایک کا انجام دینا اور دوسرے فریق کو یکسر غیر متعلق رکھنا بنیادی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ قرآن مجید عائلی زندگی کے ضمن میں اس قدر کو بہت اہتمام کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔
باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح کے عمل میں کارفرما نظر آتی ہے۔
’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح پر راضی ہوں تمہیں یہ نصیحت کی جاتی ہے، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو‘‘۔ (البقرۃ:232)
باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح کے بعد کی زندگی میں بھی قائم رہتی ہے۔
’’پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اْن کے طے شدہ مہر ادا کرو، البتہ مہرطے ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے‘‘۔ (النساء :24)
باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح ٹوٹ جانے کے بعد بھی کارفرما رہتی ہے۔
’’اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔ (البقرۃ:233)
اس طرح قرآن مجید میں باہمی رضا مندی کی عظیم قدر کا تذکرہ تینوں زمانوں کے لیے ہوا۔ نکاح کا باہمی عمل باہمی رضامندی سے انجام پائے، نکاح کے بعد ازدواجی زندگی میں بھی باہمی معاملات باہمی رضامندی سے انجام پائیں، اور نکاح ختم ہونے کے بعد پیش آنے والے باہمی معاملات بھی باہمی رضا مندی سے انجام پائیں۔
معاملات میں باہمی رضامندی تک پہنچنے کا عمل بہت سے خوش گوار تجربوں اور کیفیتوں سے گزرنے کا موقع دیتا ہے۔
آزادی وکشادگی
آزادی کا ابتدائی مطلب یہ ہے کہ انسان کا جسمانی وجود آزاد ہو، اور وہ کسی دوسرے انسان کے قبضہ ملکیت میں نہ ہو۔ اس کے لیے اسلام نے آزادی کی تحریک برپا کی اور غلامی کے دروازوں کو بند کیا۔ آزادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ارادوں اور فیصلوں میں آزاد ہو، اور یہ بھی ہے کہ انسان آزاد اور کشادہ فضا میں سانس لے، اسے محسوس ہو کہ زندگی کے سفر میں رکاوٹیں نہیں کھڑی ہیں، اور زندگی کا راستہ تنگ نہیں ہوگیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آزاد شخص بھی اپنی زندگی میں خود کو آزاد محسوس نہیں کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کی زندگی مشکل بنارہے ہیں۔ قرآن مجید نے عائلی زندگی کے حوالے سے آزادی وکشادگی کی اس قدر پر خصوصی زور دیا ہے۔
’’اورانھیں تنگ نہ کرو تاکہ اْس مہر کا کچھ حصہ اڑا لو جو تم انھیں دے چکے ہو۔‘‘ (النساء :19)
’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو ان پر پابندی نہ لگاؤ کہ… (البقرۃ:232)
’’اور انھیں تنگی سے دوچار کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ‘‘۔ (الطلاق: 6)
ان آیتوں میں عضل اور تضییق کے الفاظ آئے ہیں۔ عضل کے معنی سختی سے روکنے کے ہوتے ہیں، اور تضییق کے معنی تنگ کرنے کے ہوتے ہیں۔ جبر اور تنگی میں مبتلا کرنے والے کسی بھی رویے کو کسی بھی حال میں شریعت میں روا نہیں رکھا گیا ہے۔ نہ نکاح کرنے کے سلسلے میں، نہ ازدواجی زندگی کے دوران، اور نہ ہی طلاق کے بعد کے معاملات میں۔ زوجین کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے کشادگی کا سامان کریں، اور اسے تنگی کے احساس سے بچائیں۔ تنگ کرنا کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی مقصد سے جائز نہیں، خواہ وہ مقصد جائز ہو یا جائز نہیں ہو۔
اسلام میں طلاق اور خلع کی حکمت ضیق والی زندگی سے بچانا ہے۔ یہ نہ ہوں تو زندگی عذاب بن جائے، محض ان راستوں کے موجود ہونے سے زندگی میں سے ضیق نکل جاتا ہے، کیوں کہ زوجین میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے زیادتی کی تو اس کے شریک حیات کے سامنے جدائی اور تفریق کا راستہ موجود ہے، اور اسی لیے وہ خود ضیق میں نہیں پڑتا ہے اور دوسرے کو ضیق میں ڈالنے سے بچتا ہے۔
مشاورت
باہمی رضامندی کا حصول مشاورت کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ قرآن مجید میں مشاورت کو عائلی معاملات کے حوالے سے خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے:
’’لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔ (البقرۃ:233)
’’اور باہم مناسب طور پر مشورہ کر لیا کرو‘‘۔ (الطلاق:6)
گو کہ یہ آیتیں طلاق کے بعد رضاعت سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ہیں، لیکن اس قدر کے تذکرے نے تمام مشترک مسائل میں مشاورت کے ذریعے بہتر نتیجے تک پہنچنے کے لیے راہ دکھائی ہے، اور پوری عائلی زندگی میں اس قدر کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
مشاورت کا تعلق صرف اسلام کے سیاسی نظام سے نہیں ہے، بلکہ زندگی کے ان تمام میدانوں سے ہے، جہاں مصالح مشترک ہوں۔ فرمایا:
’’ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں‘‘۔ (الشوری:38)
یہ مکی دور کی آیت ہے، جب اسلامی نظام کی اجرائی تفصیلات سے پہلے اسلام کی بنیادی قدروں کو پیش کیا جارہا تھا۔ اس آیت کے دائرے میں عائلی زندگی ضرور شامل ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک گھر اور خاندان میں مشاورت کی قدر اچھی طرح نہیں برتی جائے، ریاست کی سطح پر اس کے لیے راہ ہموار نہیں ہوسکتی ہے۔
عائلی زندگی میں مشاورت کی قدر کو برتنے سے معاملات میں حسن پیدا ہوتا ہے، تعلقات کو استحکام حاصل ہوتا ہے، ساتھ ہی مل جل کر جینے کے لیے درکار ذہانت کا ارتقا بھی ہوتا ہے۔