کیا نماز پڑھانا دہشت گردی ہے

14126

حکومت سندھ نے کورونا وائرس کے حوالے سے آگے بڑھ کر بہت ہی جرأت مندانہ فیصلے کیے ہیں ملک کے سنجیدہ حلقوں میں اس کی پزیرائی ہوئی ہے کہیں کہیں ہلکی پھلکی تنقید بھی کی گئی ہے لیکن زیادہ تر ان فیصلوں کو سراہا گیا ہے۔ 22 اور 23 مارچ کی درمیانی رات سے پورے سندھ کو لاک ڈائون کیا گیا ہے جبکہ دیگر صوبوں نے بعد میں اس طرح کے فیصلے کیے ہیں اب وفاقی حکومت نے 14اپریل تک پورے ملک میں لاک ڈائون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ صبح 8سے 4بجے سہ پہر تک دودھ دہی، بیکری اور کھانے پینے کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن ضروریات زندگی اور دیگر چیزیں بھی ہیں جن کی اشد ضرورت پڑتی ہے موبائل فون ہر فرد کی لازمی ضرورت بن گیا ہے اس میں بیلنس ڈلوانے اور دیگر چیزوں کی دکانیں بند ہیں۔ شروع میں کچھ موبائل والوں نے دکانیں کھولی تھیں تو پولیس اور رینجرز والوں نے دھمکی دی اور اب وہ بند ہے۔ اسی طرح اگر رات بے رات کسی کی اچانک طبیعت خراب ہوجائے تو محلے کے سارے کلینکس بند ہوتے ہیں۔ کسی کی پانی کی موٹر خراب ہو جائے تو ساری دکانیں بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کہیں سے پانی بھر کر چوتھی اور پانچویں منزل تک لے جانا ایک دقت طلب کام ہے۔ اگر بائیک پنکچر ہوجائے تو محلے کے پنکچر لگانے والے چھٹی پر ہیں اب آپ گاڑی کو گھسیٹتے ہوئے پٹرول پمپ تک لے جائیں۔ اس طرح کی اور بھی مشکلات ہیں۔ صوبہ سندھ کے حکمرانوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے لیکن ہمارا حکمران طبقہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اسے غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات اور مسائل کا اندازہ نہیں ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ مساجد میں نماز با جماعت کی پابندی ہے اب صرف امام موذن اور خادم اذان دیں گے اور جماعت بنائیں گے۔ ہم نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ہمارے لیے بھی اب اسی طرح مسجد جانا مشکل ہو گا جس طرح کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے دلائل یہ دیے جاتے ہیں کہ مسجد میں جب لوگ جمع ہوں گے تو یہ وائرس ایک سے دوسرے کو لگ سکتا ہے چلیے آپ نے مسجد پر تو پابندی لگادی لیکن بڑے بڑے اسٹوروں پر محلے کی دکانوں اور بیکریوں پر جو لوگوں کا جمگھٹا ہوتا ہے اس سے بھی تو کورونا وائرس کا ایک دوسرے کو منتقل ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن اس پابندی کے باوجود کچھ مساجد میں نماز با جماعت اس طرح ہوجاتی ہے کہ ایک صف چھوڑ کر جماعت بنتی ہے اور تعداد بھی کم ہی ہوتی ہے۔
لیاقت آباد نمبر8میں مسجد غوثیہ کا مین گیٹ بلاک نمبر 8کی طرف کھلتا ہے جہاں سے نمازیوں کی بڑی تعداد مسجد میں داخل ہوتی ہے اسی مسجد کا ایک چھوٹا سا دروازہ قاسم آباد کی طرف بھی وہاں سے بھی کچھ نمازی آتے ہیں اس لیے اس مسجد میں نماز جماعت خاموشی ہو رہی تھی تعداد نمازیوں کی کم ہوتی تھی۔ جمعہ 3اپریل کو اصل مسجد کے بجائے انڈر گرائونڈ مدرسہ کی جگہ پر لوگ نماز کے لیے جمع ہوگئے جب مدرسہ بھر گیا تو اس کے گیٹ بند کردیے گئے جب امام صاحب خطبہ دے رہے تھے اس وقت پولیس اور رینجرز نے چاروں طرف سے مسجد کو گھیر لیا اور باہر سے اعلان کرتے رہے آپ لوگ قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں نماز نہ پڑھائیں اور گیٹ کھولیں اور اپنے اپنے گھروں کو جائیں لیکن لوگوں نے اطمینان سے نماز جمعہ ادا کی یہ تفصیل ایک چشم دید گواہ کی ہے جو نماز میں شریک تھے پھر اس کے بعد یعنی نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب لوگ باہر نکلے تو پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کرنا چاہا نمازی حضرات نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے جب پولیس سے تصادم ہوا تو محلے کے دیگر نوجوان بھی شامل ہو گئے اور کچھ محلے کے لوگ ایسے بھی تھے جو پولیس والوں کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کررہے تھے اور محلے کے ایک صاحب ایس ایچ او سمیت تمام پولیس والوں کو اپنے گھر لے گئے۔ دوسری طرف امام صاحب لائوڈ اسپیکر پر اعلان کرتے رہے کہ تمام لوگ پر امن انداز میں اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔ میں یہاں موجود ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا۔ اس پورے واقع کی وڈیو بھی وائرل ہو گئی اور پورے ملک میں خبر پھیل گئی ملک کے دیگر شہروں سے لوگوں کے فون آنے لگے۔ اس کے بعد جو بات انتہائی قابل تشویش بلکہ قابل مذمت ہے کہ رینجرز نے مسجد کا گیٹ توڑ کر امام مسجد کو اور کچھ اور لوگوں کو گرفتار کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔
جب جماعت اسلامی ضلع وسطی کے قیم حسین احمد مدنی، نائب امیر ضلع کامران سراج لیاقت آباد کے ناظم مسعود علی اپنے کارکنان فراز اور فیصل کے ساتھ تھانے پہنچے تو معلوم ہوا کہ امام صاحب کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے اور انہیں کسی اور جگہ منتقل کردیا گیا ہے۔ آج کے اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئیں ہیں خبر کی تفصیل یہ ہے کہ لیاقت آباد تھانے کی حدود میں واقع جامع مسجد غوثیہ میں پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر 250 سے 270 افراد کو نامزد کرکے پیش امام رحیم داد قادری سمیت 7افراد محمد سلمان، محمد سہیل بیگ، محمد نجم، محمد عبداللہ، محمد کامران قادری اور حامد عطاری کو گرفتار کرلیا گیا ہے، ان افراد کے خلاف درج مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔
ہم یہاں صوبائی حکومت سے یہ سوال کرنا چاہیں گے غوثیہ مسجد کے امام اور ان کے ساتھیوں نے کوئی مسافر طیارہ اغوا کرکے مسافروں کو یرغمال بنایا تھا جیسا کہ آپ ہی کی جماعت کے ایک کارکن سلام اللہ ٹیپو نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا تھا اور کابل ائر پورٹ پر تمام مسافروں کو یرغمال بنایا تھا اور اور ایک مسافر طارق رحیم کو گولی مار کر طیارے سے باہر پھینک دیا تھا۔ ہم نے یہ واقعہ اس لیے دہرایا ہے کہ پی پی پی کے صوبائی حکمران اپنے گریبان میں جھانکیں اور یہ دیکھیں کہ اس ملک میں دہشت گردی کی ابتدا کس نے کی تھی کیا نماز پڑھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر دہشت گردی کی دفعات لگادی جائیں۔ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی سے گرفتار کیے گئے تمام ائمہ کرام اور ان کے ساتھیوں کو فوری طور پر رہا کرے اور ان پر سے دہشت گردی سمیت تمام مقدمات واپس لے کر انہیں باعزت بری کیا جائے۔