اسکواش کا نے تاج بادشاہ اعظم خان

202

 

1924-2020
تحریر: سید وزیر علی قادری

ایک ایسا نام جو اسکواش کی دنیا میں بڑا مقام رکھتا ہے، 4مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن رہنے والا براعظم ایشیا کا سپوت اعظم خان 1959-1962 نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
ان کے بھائی ہاشم خان اور پوتی کارلا خان بھی اسکواش کے نامور کھلاڑی رہے۔اعظم خان دنیائے کھیل میں اسکواش چیمپنز روشن خان اور نصر اللہ خان کے کزن تھے جن کے بیٹے رحمت خان، طورسم خان اور جہانگیر خان نے بھی اس کھیل میں اپنا سکہ جمایا۔ وہ شریف خان اور عزیز کے چچا تھے۔
جونا بیرنگٹن جو خود 6مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن رہے اپنی کتاب ‘Murder in Squash Court ۔جو 1967میں شائع ہوئی لکھتے ہیں کہ ان کے کوچ نصراللہ خان انہیں اپنے کلب لے گئے اور درخواست کی وہ ان کے ساتھ ایک میچ پریکٹس سیشن کے طور پر کھیلیں۔ جہاں وہ یعنی مصنف3گیمز میں صرف ایک پوئنٹ حاصل کرسکا۔ یقین جانیے ایک مرتبہ پھر درخواست کی دوسرے سیشن کے لیے مگر دوسرے روز بھی میں مزید بہتری نہ لا سکا اور صرف اعظم خان کے مقابلے میں صرف ایک پوائنٹ حاصل کرسکا۔ وہ اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہویے اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ میں محض 3ہفتے قبل ہی اپنے 6برٹش اوپن ٹائٹلز میں پہلا ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ یہ واضح رہے کہ اعظم خان اس وقت 48سال کے تھے اور پروفیشنل اسکواش کو 1962میں خیر آباد کہ چکے تھے۔
ایک اور بین الاقوامی اسکواش پلیئرز میگزین میں اعجاز چوہدری لکھتے ہیں کہ اعظم خان بڑا کھلاڑی تھا جو اسکواش کی تاریخ میں ہمیشہ بڑے کھلاڑی کے طور پر پہنچانا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اعظم خان نے برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پہلا میچ وہ پشتو روایات کا لحاظ کرتے ہویے وہ اپنے بڑے بھائی کی اجازت سے ان کے مدمقابل ہوکر جیتے تھے۔ واضح رہے کہ اعظم خان COVID-19میں مبتلا ہوکر 95سال کی عمر میں 28مارچ 2020کو لندن میں انتقال کرگئے تھے۔
اعظم خان 7مرتبہ برٹش اوپن کے فائنلز تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہویے اور انہوں نے لگاتار 1959سے 1962ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اس سے قبل 1954میں وہ ہاشم خان سے 6-9,9-6,9-6,7-9اور 9-5سے ، 1955میں ہاشم خان سے ہی مقابلے میں 9-7, 7-9, 9-7, 5-9 اور 9-7سے جبکہ تیسری مرتبہ ٹائٹل کے حصول میں ناکام رہے 9-7,6-9,9-6اور 9-7اسکور رہا ۔ اس معرکے میں بھی ہاشم خان ہی مدمقابل تھے۔ اسی طرح پہلا ٹائٹل جب اپنے نام کیا وہ 1959کا سال تھا جب انہوں نے محب اللہ کو 9-5, 9-0 اور 9-1بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس کے بعد دوسرے سال روشن خان 1960میں سامنے آئے مگر اعظم خان نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہویے انہیں 9-1, 9-0اور 9-0سے چت کیا۔ تیسرا معرکہ 1961میں دوبارہ محب اللہ مدقابل ہویے مگر اس مرتبہ انہوں نے اعظم خان کو آسانی سے انہیں زیر کرنے سے باز رکھا ۔ اس میچ میں 6-9, 9-1, 9-4, 0-9 اور 9-2اسکور رہا ۔ آخری ٹائٹل جو ان کی اسکواش کی دنیا میں بھی آخری تھا اور اس کے بعد انہوں نے کورٹ کو خیر آباد کہا 1962میں محب اللہ کو انہوں نے 9-6,7-9, 10-8, 2-9 اور 9-4سے شکست دے کر لگاتار 4مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
آپ یہ کہ سکتے ہیں برٹش اوپن پر خان خاندان کی اجارہ داری رہی، ہاشم خان 8مرتبہ فائنل میں پہنچے جس میں 7مرتبہ چھوٹے بھائی اعظم خان سے ان کا مقابلہ رہا۔
اعظم خان، جو NEW GRAMPLAN CLUB جو لندن میں واقع ہے کے سربراہ تھے۔اس کلب میں وہ ایک ناقابل یقن شاٹ لگانے والے اور بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے والے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یادوں کے دریچے کھولتے ہویے ان کا فتحانہ انداز میں کہنا تھا کہ ان کے بھائی روشن خان جو خود بہترین اسکواش کھلاڑی تھے ان کے )اعظم خان (کے مقابلے میں کمزور نظر آتے تھے۔ گیلری میں بیٹھے زیادہ تر شائقین جو میچ کو دیکھ رہے ہوتے تھے ناراض ہوجاتے تھے کہ کچھ دال میں کالا ہے کہ اعظم خان صدی کا بہترین اسکواش کھلاڑی جو اس کا بڑا بھائی ہے کو کم وقت میں کورٹ میں چت کردیتا ہے اور ہم جو اس کے شاٹ دیکھنے آتے ہیں وہ اعظم خان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ یوں کہ لیں کے ہاشم خان کا تاریخی فتح کا دور کے خاتمے کا ذمہ دار اعظم خان کو ٹہرایا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ بھی واضح رہے کہ انہیں گھٹنے کی انجری کا سامنا رہا مگر اس کے باوجود وہ کچھ عرصے ضرور اسکواش کے کورٹ میں اپنا ہوہا منواتے رہے۔
اسکواش کے بارے میں ماہرین کی رائے ہمیشہ یہ رہی کہ لگتا ہے کہ برٹش اوپن کا آغاز ہی پاکستان سے تعلق رکھنے والے خان خاندان کے لیے کیا گیا ہے جہاں ایک بڑے عرصے تک ان کی حکمرانی رہی۔ یہ ہی کچھ سینکڑوں شائع ہونے والے اسکواش کھیل پر لکھے گئے مضامین اور اس کھیل پر تجزیاتی کتب جو بازاروں میں اس کھیل کے شوقین قارئین کے لیے لکھی گئی ہر میں اس حقیقت کی جھلک نظر آتی ہے۔
ایک موقع پر اعجاز چوہدری ان سے اس کھیل پر حکمرانی تک پہنچے کے درمیان سفر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو اعظم خان ایک دلچسپ اور حیران کن انکشاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پاکستان ائیر فورس کے آفیسرز کلب میں ٹینس کا کوچ تھا۔ میرے بڑے اور صرف ایک ہی بھائی ہاشم خان جو اس زمانے میں 2مرتبہ برٹش اوپن کا ٹائٹل جیت چکے تھے نے مشورہ دیا کہ وہ ٹینس سے اسکواش کی طرف آجائیں۔ یقین جانیے میں اس کھیل میں آ تو گیا لیکن اس سے پہلے کھبی اسکواش کھیل نہیں کھیلا تھا۔یہ ہی نہیں محض 2سال میں جب بڑے بھائی کی تجویز یا مشورے کو ‘حکم ‘سمجھ کر قبول کیا تھا اعظم خان کا شمار بڑے کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔
ان فتوحات اور دلچسپی کو دیکھ کر پاکستان ائیر فورس نے ان کے برطانیہ جانے اور وہاں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کئی نمائشی میچوں کا انعقاد کیا تاکہ اس کے لیے رقم کا بندوبست ہوسکے۔ میرا پہلا مقابلہ برٹش اوپن کے نمبر ون سے تھا جسے میں نے سیمی فائنل میں شکست دی اور فائنل میں اپنے بھائی کے مقابلے میں فتحیاب ہوا۔ یہ بھی المیہ تھا جب اسکواش ریکٹ ایسوسی ایشن جو اب اب انگلینڈ اسکواش کہلاتی ہے نے مجھے 1953کے برٹش اوپن میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔
اس کے لیے مجھے برٹش ون سے مدمقابل ہونا پڑا اور وہ میں جیت گیا۔ مگر اللہ رب العزت کا کرنا یہ ہوا کہ مختلف مراحل سے گزر کر اگلے سال ہی میں اس میگا ایونٹ کا حصہ بن گیا۔ یہ ہی نہیں جب میں فائنل میں پہنچا اور میرے بڑے بھائی سے ہی مدمقابل آیا اور وہ جیت گئے تو اس وقت وہاں کے اخبارات نے اس طرح کی خبریں شائع کرنی شروع کردیں کہ یہ ‘خاندانی مراسم’ کا کھیل ہوچلا ہے اور کورٹ میں کوئی بھی ہارے یا جیتے جیت پاکستان ملک اور خان خاندان کے نام سے ہی پہچانی جاتی ہے۔
اعظم خان کے مطابق نصر اللہ جو اس وقت اسکواش ریکٹ ایسوسی ایشن کے امور کو چلا رہے تھے نے کئی مرتبہ ان کی اس کھیل میں رکاوٹوں کو دور کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ 1959میں روشن خان کا سر پر سجا تاج کا اختتام ہوا جب اعظم خان نے برٹش اوپن جیت کر پہلا ٹائٹل اپنے سر پر سجایا۔ان 4ٹائٹلز میں یادگار میچ 1960کا سال تھا جب روزشن خان کو بڑے مارجن سے شکست دی اور وہ تاریخی طور پر سب سے کم وقت میں کھیلے جانے والا برٹش اوپن فائنل کہلایا جس کا فیصلہ محض 19منٹ میں ہوگیا۔یہ ہی وہ موقع تھا جب ناراض گیلری کے شائقین کو منانے کے لیے جو بہت مہنگے ٹکٹ خرید کر میچ دیکھنے آتے تھے نئی حکمت عملی انتظامیہ کو اختیار کرنا پڑی۔
اعظم خان نے1962میں اسکواش کی دنیا سے اس وقت علیحدگی اختیار کی جب وہ مسلسل 4مرتبہ برٹش اوپن کا ٹائٹل اپنے نام کرچکے تھے۔ اس زمانے میں یو ایس اوپن کا انعقاد ہوا اور وہ گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے کسی بڑے ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لے سکے۔ 18ماہ بعد صحت یاب ہونے کے بعد بھی وہ پھر اس کورٹ سرکٹ میں واپس نہیں آئے۔
گھٹنے کی تکلیف تو دور ہوگئی مگر ان کو دوسرازندگی میں شدیدجھٹکا اس وقت لگا جواں سال بیٹا انتقال کرگیا۔ اس کی عمر صرف1962میں 14سال تھی۔ اس کے بعد ان کی اسکواش کھیل سے متعلق سرگرمیاں ان کے کلب تک محدود ہوکر رہ گئیں۔
مختصر یہ کہ میں اپنی جائے پیدائش 1963میں واپس وطن پاکستان آیا۔ اس موقع پر پاکستان اسکواش فیڈریشن نے مجھ کو قومی چیمپئن شپ کھیلنے کی دعوت دی۔ میں تکالیف سے مکمل اٹھ بھی نہیں پایا تھامگر اس پیشکش کو ٹھکراتے ہویے اچھا نہیں لگ رہا تھا لہذا کئی سال سیمنٹ کورٹ میں کھیلنے کے باوجود میں نے اس وقت کے 3سال عالمی چیمپئن روشن خان کا مقابلہ فائنل میں کیا اورالحمد للہ وہ اپنے نام کیا۔
اپنی نجی زندگی کے بارے میں اعظم خان کہتے ہیں کہ 1956میں نے انگلینڈ مین سکونت اختیار کرلی تھی۔ مگر میں پاکستان آتا جاتا رہتا تھا۔ آخری مرتبہ میں پاکستان 2000میں گیا تھا جہاں جہانگیر خان کے اعزاز میں پاکستان اسکواش فیڈریشن نے شاندار انعقاد کیا تھا۔ انہوں نے آہ بھرتے ہویے پاکستان چھوڑنے کی وجہ بتائی کہ وہ کیوں پاکستان چھوڑ کر دیار غیر میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہویے۔ حالانکہ میں پاکستان ایئر فورس میں کوچ تھا اور اس وقت1953 مجھے 60روپے ملتے تھے جو کرنسی کے اعتبار سے برطانیہ کے 5پینی کے برابر بنتی تھی۔میں جب برٹش اوپن کے سیمی فائنل میں پہنچا اس وقت مجھے ‘الیکٹریشن ‘کے عہدے پر ترقی مل گئی اور میں اس وقت کی انٹرنیشنل کرنسی ریٹ کی بنیا د پر پاکستان کے 100روپے ہر مہینے کمانے لگا۔مگر مضحکہ پہلو یہ رہا کہ جب میں رنر اپ رہا اور فائنل میں شکست سے دوچار ہوا تو میری نتزلی کردی گئی اور دوبارہ ‘پورٹر’بنادیا گیا۔ اس وقت جو وجہ بتائی گئی وہ یہ تھی کہ اب اس پوزیشن ‘الیکٹریشن ‘کی گنجائش نہیں رہی۔
انہوں نے جہاں ماضی کے دریچے کھولے وہیں پاکستان ائیرفورس کی جانب سے صرف ریٹرن ٹکٹ ملنے کا بھی زکر کیا جس کی بنیاد پر وہ مزید کھیل جاری نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ ٹورنامنٹس بڑھ چکے تھے جس میں برٹش اوپن، برٹش پروفیشنل، دی اسکوٹش اوپن اور چند ٹورنامنٹ امریکا اور کینڈا کے ملکوں سے بھی تعلق رکھتے تھے اور رہائش و کھانے پینے کے بھاری اخراجات ہونے کی وجہ سے مشکلات بڑھتی جارہی تھیں جبکہ ان ٹورنامنٹس میں پرائز منی بہت معقول اور اچھی خاصی ہوتی تھی۔
1956میں ایک نمائشی اسکواش میچ کھیلا جس میں ہاشم خان سے مقابلہ تھا جو New Grampians Club جو شیپرڈز بش پر واقع تھا۔ کھیل کے اختتام پر کلب کے مالک نے کوچ کی ملازمت کی آفر کی۔ اس میں تنخواہ کے ساتھ رہائش بھی شامل تھی۔ اس پیشکش کو میرے پاس رد کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
اس کلب کا مالک طبیعت ناسازگی کی وجہ سے اس کو صیح طریقے سے چلا نہیں پار ہا تھا۔1957اس نے مجھ سے کہا کہ تم اس کلب کو لے لو۔ میرے لیے یہ پیشکش بالکل حیران کن تھی کہ میرے پاس تو اس کو خریدنے کے لیے رقم ہی نہیں تھی۔ مگر اس نے قسطوں میں اس کی ادائیگی پر رضا مندی ظاہر کردی جس کو 5سال میں پورا کرنا تھا۔ اس طرح میں اس کلب کا مالک بن گیا۔ اس کلب کو اعظم خان نے نصف صدی پر محیط عرصے چلایا جس کے دوران اس نے کئی نامور نوجوان اسکواش کے کھلاڑی پید ا کیے۔ اس کی مثال 1964میں برٹش اوپن میں اس کلب کا کھلاڑی مائیک اوڈی تھا جس کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا اس نے محب اللہ کو سیمی فائنل میں شکست دی۔
غرض دنیائے کھیل کے اسکواش کا فاتح اعظم خان اپنی زندگی کی سنچری بنانے سے محض5سال کم یعنی 95سال کی عمر میں موجودہ عالمی وبا COVID-19 شکست نہ دے سکا اور 28مارچ کو لندن میں انتقال کرگیا جہاں اس کے خاندان کے دیگر افراد اپنے آپ کو اس موذی مرض کے خوف سے گھروں میں محصور ہویے ہویے تھے اور ان کا غم کے موقع پر کہنا تھا کہ ہم مجبور ہیں کہ بیٹا اپنے والد اور پوتی اپنے داد ا کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت نہیں کرسکیں گے جس کا انہیں زندگی بھر افسوس رہے گا۔ تاہم اس صدمے کی گھڑی میں دنیا ئے کھیل کے ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے بڑے مرتبوں پر فائز غمزدہ شخصیات نے مرحوم اعظم خان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور دعا کہ رب العزت ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین اور ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ‘آسمان تیری لحد پر شبنم فشانی کرے ‘۔