ڈاکٹرعمرفاروق احرار
پاکستان آج کل شدید معاشی اور سیاسی بحرانوں کے گرداب میں ہے۔ ان مشکل حالات میں وزیراعظم پاکستان کا امریکا کا دورہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف امریکا کو افغانستان کا تصفیہ حل کرنے کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے تو دوسری طرف پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے امریکا کے دستِ شفقت کی ضرورت ہے، لیکن عمران خان کے دورے سے پہلے ایک پاکستانی عبدالشکور وائٹ ہاؤس کا طواف کرچکا ہے۔ جس کے عمران خان کے دورے پر خاص اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ جس کے واضح اثرات ونتائج آنے والے وقت میں کھل کر سامنے آئیں گے۔
عبدالشکور چناب نگر کا رہائشی اور مذہباً قادیانی ہے۔ وہ چناب نگر میں ممنوع قادیانی کتب کی اشاعت اور فروخت کے جرم میں دسمبر 2015ء میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا۔ اُس کی دوکان پر چھاپا مار کر توہین رسالت پر مبنی مواد اور ممنوع قادیانی کتب برآمد کی گئیں۔ اس چھاپے کی نہ صرف وڈیو بنائی گئی، بلکہ تصاویر بھی ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ دکان سے جو متنازع کتب برآمد ہوئیں، ان میں ’’کشتی نوح‘‘، ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘، ’’تفسیر صغیر‘‘، ’’تذکرۃ المہدی‘‘، ’’جماعت احمدیہ کا تعارف اور حقائق‘‘ کے علاوہ رسالہ ’’الفرقان‘‘ سمیت دیگر کئی توہین آمیز کتب اور کتابچے بھی شامل تھے۔ عبد الشکور کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ قادیانی جماعت کے شعبہ نشرو اشاعت کا سیکرٹری ہے اور اس سے پہلے بھی گستاخانہ مواد پر مشتمل کتب فروخت کرنے کے الزام میں زیر حراست رہ چکا ہے۔ مقدمہ چلا اور اُسے آٹھ سال کی سزا (انسداد دہشت گردی کے ایکٹ (اے ٹی اے ) 11ڈبلیو 89 کے تحت پانچ سال اور 298 سی کے تحت تین سال) سنائی گئی۔ اکتوبر 2018ء میں امریکی کانگریس کے ایما پر ہیومن رائٹس کمیشن اور عالمی مذہبی آزادی کی تنظیم نے عبدالشکور کی رہائی کے لیے آواز اٹھانا شروع کی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 4 مارچ 2019ء کو اپنے سفیر کے ذریعے پاکستان سے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ پھر 17مارچ کو یہی مطالبہ امریکی وزیر کی جانب سے بھی کیا گیا اور بالآخر عبدالشکور کو 20 مارچ 2019ء کو رہائی کا پروانہ مل گیا۔ اب چند دن پیش تر عبدالشکور کو امریکا میں پہنچا کر صدر ٹرمپ سے اس کی ملاقات کرائی جاچکی ہے۔
قادیانیت اور سامراجیت کا ساتھ جنم جنم کا ہے۔ برطانوی سامراج نے قادیانیت کا خمیر اُٹھایا، پالا پوسا اور جوان کیا، چونکہ قادیانیت کی پیدائش اسلام دشمنی پر اُستوار ہوئی ہے، اس لیے اب حسب ضرورت کبھی برطانوی اور کبھی امریکی سامراج کی قدم بوسی اور احکامات کی وصولی کی جاتی ہے۔ پاکستان کو بحرانوں میں لپٹا دیکھ کر قادیانیت پھر اپنے نصرانی آقاؤں کے قدم بہ قدم کھڑی ہے۔ ایک گم نام قادیانی عبدالشکور کو وائٹ ہاؤس میں پزیرائی ملنا معمولی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے عالمی قوتوں کی طرف سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اُن کا قادیانی گروہ کی شکل میں پاکستان میں عمل دخل اب بھی موجود ہے۔ جبکہ دوسری طرف امت مسلمہ بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو قادیانیت کے اثرو رسوخ اور اس کی براہ راست امریکی صدر تک رسائی کے ذریعے مرعوب کرنے کا یہ ایک نفسیاتی حربہ بھی ہے۔ جس کی بدولت مخالفین کے لیے اعصابی شکست وریخت کا عمل بروئے کار لانا بھی طاغوتی قوتوں کا مقصود ومطلوب ہے۔
جب بھی آئین کے دائرے میں قادیانیوں کی اشتعال انگیزی کے خلاف ریاستی ادارے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ہمیشہ اسے قادیانیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں درجنوں دیگر اقلیتیں بھی موجود ہیں، مگر آج تک اُن کی جانب سے کبھی ایسی کوئی شکایت نہیں کی گئی۔ قادیانی اپنے کفر کو چھپانے کے لیے اپنی آئینی حیثیت کو ماننے سے انکاری ہیں اور اپنے مسلمان ہونے پر اِصرار کرتے ہیں۔ جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ اس طرح خود ہی اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر اُن کے نتائج کو عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عبدالشکور قادیانی نے بھی امریکی صدرکے سامنے اپنی اور اپنی کمیونٹی کی مظلومیت کا رونا رویا اور پاکستان میں قادیانیوں پر فرضی مظالم کا جھوٹ بولا۔ قادیانیوں پر ظلم وستم کی یہ مبالغہ آمیز جھوٹی داستان عبدالشکور نے پہلی بار نہیں دہرائی، بلکہ عالمی استعمار کی شہ پر قادیانی جماعت ہمیشہ اس جھوٹی کہانی کو ایک متعینہ اسٹرٹیجی اور ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ جس سے عالمی قوتوں کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوانا آسان ہوجاتا ہے۔ اب قادیانی کھل کر سامنے نہیں آتے، بلکہ اپنی سرپرست بین الاقوامی طاقتوں کے سہارے اور لابیوں کی مدد سے پاکستان کو مختلف پابندیوں میں جکڑنے کے لیے کئی حربے استعمال کرتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں بین الاقوامی معاہدوں، غیرملکی امداد اور مذاکرات کے دوران مذہبی آزادی کے نام پر پاکستان پر مختلف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور من مانی شرائط منوانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ قانون توہین رسالت کا مسئلہ اس کی واضح مثال ہے۔ جس کے خاتمہ کے لیے یورپی یونین اور امریکا یک آواز اور مصروف عمل ہیں۔
امریکا نے قادیانیوں کے سرپرست ہونے کا عندیہ دے کردینی قوتوں کے خلاف اور قادیانیوں کی حمایت میں کھڑا ہونے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اب تحفظ ختم نبوت محاذ پر سرگرم جماعتوںکے خلاف کھلم کھلا کاروائیوں اور کریک ڈاؤن کا امکان پیدا ہوچکا ہے۔ یہ کٹھن وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دینی قوتوں کے ذمے دار مشترکہ لائح عمل تیار کریں اور عدم تشدد کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے ختم نبوت کا پیغام عام کریں، قادیانیوں کی تخریبی واشتعال انگیز سرگرمیوں کو بین الاقوامی فورم پر آشکار کریں اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے سدباب کے لیے اُن کی مذموم کارروائیوں کو منظر عام پر لاکر رائے عامہ کو ہموار کریں، تاکہ اُن کی مبینہ مظلومیت کی نقاب کشائی ہوکر حقیقت عیاں ہوجائے۔