اب وزیراعظم چینی مافیا کو پکڑیں

410

ایک ہنگامے کے دوران دوسرے ہنگامے کی رپورٹ آگئی ہے۔ جس کے مطابق آٹا اور چینی بحران کے ذمے دار وفاق، پنجاب اور پختونخوا حکومتیں ہیں۔ جن لوگوں کو فائدہ پہنچا وہ پی ٹی آئی کے ہیں یا اس کے حلیف ہیں جس وقت یہ بحران پیدا ہوا تھا وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کی روایت برقرار رکھتے ہیں یا ٹائیگر کی طرح ڈٹ جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے ابتدا ہی میں اعلان کردیا تھا کہ میں بحران کے ذمے داروں کو جانتا ہوں اور ان کی اپنی بنائی ہوئی تحقیقاتی کمیٹی نے جو رپورٹ دی اس میں ان کے اہم اور قریبی لوگوں کے نام آگئے۔ رپورٹ کے مطابق اس مصنوعی بحران سے جہانگیر ترین نے 56 کروڑ روپے کمائے جبکہ خسرو بختیار کے بھائی نے 45 کروڑ کا فائدہ اٹھایا۔ مال بنانے والوں میں چودھری مونس الٰہی اور غلام دستگیر خان بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ پر جہانگیر ترین نے سب سے زیادہ وضاحتیں دی ہیں اور بڑی دلچسپ ہیں ایک وضاحت یہ دی کہ مجھے تین ارب کی سبسڈی دی گئی تھی لیکن صرف ڈھائی ارب کی ملی، دوسری وضاحت یہ کہ مجھے ڈھائی ارب کی سبسڈی نواز لیگ کے دور میں ملی اس ضاحت میں انہوں نے تین ارب کی سبسڈی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہنزہ گروپ کو 2 ارب 80 کروڑ، فاطمہ گروپ کو 2 ارب 30 کروڑ، شریف گروپ کو ایک ارب 40 کروڑ روپے اور اومنی گروپ کو 90 کروڑ دس لاکھ کی سبسڈی ملی۔ اومنی گروپ بہت معروف ہے اور آج کل نیب کے شکنجے میں ہے۔ بات صرف اتنی نہیں یہ رپورٹ تیار ہونے کے بعد بھی شوگر مافیا نے اپنا کام جاری رکھا اور وزیراعظم کو چینی 110 روپے فی کلو تک پہنچانے کی دھمکی دی جس پر وزیراعظم نے رپورٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ لیکن اس رپورٹ کے فارنزک تجزیے کی ہدایت کی ہے۔ یہاں سے تضادات شروع ہوتے ہیں۔ جب نواز شریف کا نام پاناما لیکس میں آیا تو اس کی فارنزک تصدیق کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد جتنے بھی مقدمات بنے کسی کے خلاف بھی نیب یا ایف آئی اے نے رپورٹ پیش کی، وزیراعظم نے فارنزک تجزیے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن کے خلاف بھی رپورٹ اور الزامات پر بحث کے دوران ہی گرفتاری کرلی۔ رانا ثنا اللہ کو محض رپورٹ پر گرفتار کیا گیا۔ احسن اقبال کو بھی اسی طرح پکڑا گیا۔ ان معاملات میں الزامات کا فارنزک تجزیہ کیوں نہیں کیا گیا۔ بہت واضح بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حکمران پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتا۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں آٹا اور چینی بحران کا ذمے دار وفاق، پنجاب اور پختونخوا حکومتوں کو قرار دیا گیا ہے اور یہ تینوں براہ راست پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی ذمے داروں کو جیل بھیج کر وزیراعظم استعفیٰ دے دیتے پھر پارلیمنٹ جسے چاہے وزیراعظم بناتی۔ اس وقت ملک کورونا بحران کی زد میں بھی ہے ورنہ تو اس چینی بحران کی رپورٹ کا واحد اور بہترین حل نئے انتخابات ہی تھے۔ کیونکہ یہ بات پہلے بھی بتائی جا رہی تھی کہ اسمبلیوں میں اور وزارتوں میں آٹا چینی مافیا موجود ہے۔ یہی لوگ مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں۔ خود ہی سبسڈی لیتے ہیں، خود ہی برآمد کر دیتے ہیں۔ ایک زرعی ملک میں جہاں چینی اور آٹا بے حساب پیدا ہوتا ہے وہاں ان اشیا کا بحران پیدا ہونے کا مطلب یہی ہے کہ یہ مصنوعی ہے۔ یہ بحران صرف پی ٹی آئی کی حکومت میں نہیں آیا بلکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جنرل پرویز مشرف کی کابینہ اور اس سے قبل بھی آتا رہا ہے اور اس کا مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا اور وہ ہے مال بنانا۔ اگر ناموں کی بات کریں تو غلام دستگیر خان، اومنی گروپ، خسرو بختیار، جہانگیر ترین ہر دور میں یہی کام کرتے نظر آئیں گے۔ ان کو اپنے کام کے لیے پارٹی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے تو بڑے آرام سے بدل لیتے ہیں۔ آمریت کی گود میں پل کر جمہوریت کی آبیاری بھی ایسے ہی لوگ کرتے ہیں۔ اتنے بڑے اسکینڈل میں پی ٹی آئی کے اہم رہنمائوں کا نام آنے کے باوجود وزیراعظم کا رویہ نہایت غیر سنجیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مخالفین نے صرف مال بنایا ہے۔ اپنے کارکنوں سے کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں جو کھڑا ہوگا عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔ پی ٹی آئی امیدوار حلقے مضبوط کر سکتے ہیں۔ ریلیف فنڈ کے ذریعے امداد سیاسی وابستگی سے بالا ہو کر دی جائے گی۔ جناب وزیراعظم صاحب اپنے سابقہ بیانات کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ پیسہ بنانے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام بحران پیدا کرنے والوں میں نہیں ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو حلقے مضبوط کرنے کا مشورہ اور یہ کہنا کہ حکومتی اقدامات ان کے کھاتے میں جائیں گے اس شبہے کو تقویت دے رہا ہے کہ ریلیف فنڈ انتخابی سیاست کے لیے استعمال ہوگا۔ وزیراعظم کے اس بیان اور ہدایت کا اور کوئی مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ امدادی رقم اور پیکیج کی تقسیم کے ذریعے حکومتی فورس عوام سے رابطہ رکھے اور حکومت کے اچھے کام پی ٹی آئی امیدواروں کے کھاتے میں آئیں۔ اس رویے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے ایک پارٹی کا سربراہ چندے اور امداد کے نام پر ملنے والی رقم کے پیکیج کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے الیکشن میں کامیابی کا راستہ قرار دے رہا ہے اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کو اسی سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کر رہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اس حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی افسوس ناک امر ہوگا۔ ایک جانب حکومت آٹا چینی بحران کے ذمہ داروں کے سہارے چل رہی ہے دوسری جانب وہ خیرات کی رقم سے سیاست کی تیاریاں کر رہی ہے۔