’’کام کیجیے لیکن دوام کے ساتھ‘‘

378

احمد توصیف قُدس کشتواڑ(جموں و کشمیر)
انسان کو اُس کے خالق نے سوچنے سمجھنے کی غیر معمولی قوتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ قوتیں انسان کو یوں ہی بے کار بیٹھنے نہیں دیتیں۔ یہ ہر وقت انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے پر اُکساتی رہتی ہیں۔ ہم سب اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ہمیں انسانی شکلوں میں کسان و مزدور، استاد و وکیل، انجینئرو ڈاکٹر، نائی و موچی، لوہار وسُنار، پنساری و سبزی فروش، ڈرائیور و کنڈیکٹر، لڑکا لڑکی، پیر و جواں اور مرد وخواتین کی صورت میں مختلف کردار نظر آئیں گے۔ ظاہر ہے اِن کرداروں کے نام اِن کے کام (ڈاکٹری، مزدوری، لوہاری، زمینداری، دکانداری وغیرہ) کی بنیاد پر ہی پڑے ہیں اور یہ سب چلتے پھرتے کردار ہیں جن سب کے باہم میلاپ سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے کے یہ سبھی کردار بے کار ہونے کے بجائے اپنے کاموں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہفتوں گھر کے ایک کمرے میں بیٹھا رہنے والا شخص بھی فی الحقیقت بے کار نہیں ہوتا۔ وہ دماغی طور پر مصروف رہتا ہے۔ منفی خیالات اور اندیشوں ہی میں صحیح، لیکن خیالات کے سمندر میں وہ غوطہ زنی کرتا ضرور ہے۔
انسان کی سرشت میں ہے کہ اپنا کام جلد از جلد ختم کرکے اُس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ بٹورا جائے۔ یہ ایک مستحسن عمل اور سوچ ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ زیادہ فائدہ بٹورنے کی خاطر انسان بے چینی اور عجلت کا شکار بن جاتا ہے۔ اِس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے کام کو خراب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر اس عجلت پسندی کے سبب اپنے پیشے میں مہارت حاصل نہیں کرپاتا، ایک مہندس (Engineer) اپنے نقشوں کو بگاڑ دیتا ہے اور ایک استاد بچوں کی ناقص تربیت کا ذمے دار بن جاتا ہے۔
واقعہ دراصل یہ ہے کہ انسان بعض اوقات جوشِ عمل کا شکار ہو کر خود کو ایک مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ وہ ایسا کام سرانجام دینے کی ٹھان لیتا ہے جس کے لیے اُس کے پاس مطلوبہ صلاحیت یا وقت نہیں ہوتا۔ چنانچہ جذبات کی آڑ میں بہہ کر وہ ایسے فیصلے لیتا ہے کہ جن کی عمل آوری بعدازاں اُس کے لیے محال بن جاتی ہے۔ چند مثالوں سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
٭ جو شخص نماز فجر باجماعت ادا کرنے کا متمنی ہو اور کوششوں کے باوجود وقت پر بیدار نہیں ہو پاتا، وہ اپنی اِس کمزوری کے سدِباب کے لیے بسا اوقات جذباتی بن جاتا ہے۔ وہ جذبات میں اس قدر بہہ جاتا ہے کہ نماز فجر چھوڑیں وہ نمازِ تہجد کے لیے اُٹھنے کا قَصد کرلیتا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ نمازِ تہجد کے لیے بھی اُٹھ نہیں پاتا تو مایوسی اور احساسِ ندامت کا شکار بن جاتا ہے۔
٭ اِسی طرح ماہِ رمضان ہی کی مثال لیں۔ رمضان کا یہ مقدس اور بابرکت مہینہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کے لیے مختص کررکھا ہے۔ اِس ماہِ مقدس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ وہ پانچ وقت کی نمازوں اور نمازِ تراویح کا اہتمام کر تے ہیں اور جھوٹ، غیبت اور ریا سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اِس بابرکت مہینے میں مسجدوں میں لوگوں کی تعداد دیدنی ہوتی ہے۔ ہر کوئی خدا کا بندہ رضائے الٰہی کا طالب نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہی مسلمان رمضان کے اختتام پزیر ہونے کے بعد ہی اپنی سابقہ روش پر آجاتے ہیں۔ وہ دھڑلے سے نمازیں چھوڑتے ہیں، جھوٹ، حسد اور حرص جیسی معاشرتی بُرائیوں کو پھر سے اختیار کر تے ہیں۔ غرض رمضان میں شروع کیے ہوئے اپنے نیکیوں کے سفر کو وہ آگے نہیں بڑھا پاتے۔
٭ ہم بعض اوقات خود پر گناہوں کا بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ گناہوں سے باز آکر سنبھلنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پھر سے گِر پڑتے ہیں۔ پھر سے اُٹھ کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہماری کوششیں اس قدر کمزور ہوتی ہیں کہ کچھ ہی روز بعد اپنی سابقہ روش پر آجاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم ایک ’’غیر مستقل مزاجی‘‘ کے خطرناک مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اِس بیماری میں ہمارا جذبۂ عمل مستقل نہیں رہتا۔ وہ ڈاواں ڈول ہو کر ایک مست شرابی کی طرح کبھی اِدھر گرتا ہے تو کبھی اُدھر۔ ’’غیر مستقل مزاجی‘‘ کا یہ مرض ہمیں ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ہمارے وجود میں بیک وقت دو کردار پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک کردار اچھائی کا اور دوسرا برائی کا۔ بس ان ہی دو کرداروں کا مجموع ہماری شخصیت بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی شخصیت ایک غیر متوازن اور غیر مفید شخصیت قرار دی جا سکتی ہے جس میں سوسائٹی کے لیے کوئی خیر کا پہلو شامل نہیں ہوتا ہے۔
٭ ہمیں اپنی زندگی میں ایک دوسر ے سے وعدہ و تلقین کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اِسی بنیاد پر معاشرے میں لین دین اور باہمی روابط اور تعلقات اُستوار ہوتے ہیں۔ کسی خاص کام کو انجام دینے کے لیے ہم بعض اوقات معاہدے بھی کرتے ہیں اور معاہدے کی پیروی کرنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ہماری بستی‘‘ میں دھڑلے سے ان وعدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ وعدہ کرتے وقت ہم عجلت پسند یا جذباتی بن جاتے ہیں۔ لیکن جب عمل کی بات آئے تو اُس وقت ہم ’’غیر مستقل مزاجی‘‘ کا مظاہرہ کرکے اپنا وعدہ بھول جاتے ہیں۔
اِن سب مثالوں کی آڑ میں کہنا دراصل یہی مقصود ہے کہ انسان اپنے اچھے کاموں کو دوام بخشنے میں اکثر اوقات ناکام ہوجاتا ہے۔ وجہ صاف ہے، انسان کی عجلت پسندی اور جذباتیت پر مبنی سوچ۔ انسان کو چاہیے کہ اچھے اعمال کم ہی انجام دیں لیکن اُن اعمال میں دوام ہو۔ دوام اُسی صورت میں حاصل ہوگا جب وہ عمل بار بار کیا جائے۔ نبی کریم نے جبھی کم مگر مسلسل کیے جانے والے اعمال کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ آپؐ کا ارشادِ پاک ہے: ’’اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو پابندی کے ساتھ ہو اگرچہ مقدار میں قلیل ہو۔‘‘ (بخاری)