پی ایم ڈی سی فیصلے پر توہین عدالت

348

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو واضح احکامات جاری کیے کہ وہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو کام کرنے دیں ۔ اس سے گزشتہ سماعت پر بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سخت ترین تنبیہہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار کو کام کرنے دیں ۔ گزشتہ سماعت میں ہی وفاقی حکومت نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ رجسٹرار کو ان کے دفتر میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم منگل کو پتا چلا کہ وفاقی حکومت نے عدالت سے جھوٹ بولا تھا اور رجسٹرار جب اپنے دفتر پہنچے تو اسلام آباد کی پولیس دفتر پر متعین تھی اور اس نے رجسٹرار کو ان کے دفتر میں جانے سے جبری طور پر روک دیا ۔ جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں ، اس دن سے وہ ہر اس چیز کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں ، جہاں پر ان کے ذاتی مفادات ہیں ۔ برسراقتدار آتے ہی عمران خان نے ملک کے اہم ترین ادارے پی ایم ڈی سی کو توڑنے اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن بنانے کا اعلان کرڈالا ۔ اس سلسلے میں عمران خان کے ربر اسٹیمپ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے فوری طور پر صدارتی فرمان بھی جاری کرڈالا ۔ پاکستان میڈیکل کمیشن میں تمام تر اختیارات این جی اوز کو دے دیے گئے جبکہ اس میں کلیدی اختیار شوکت خانم اسپتال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کو دیا گیا ۔ جس دن پاکستان میڈیکل کمیشن تشکیل دیا گیا، اسی دن سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ یہ پاکستان میں میڈیکل کے شعبے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ پاکستان کے ڈاکٹروں کی مہارت اور استعداد کی دنیا معترف ہے ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ابھی تک میڈیکل کے شعبے کو سرکاری دخل اندازی سے پاک ایک ادارہ دیکھ رہا تھا مگر عمران خان نیازی کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔ وہ شوکت خانم اسپتال بنا کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں میڈیکل کے شعبے پر صرف اور صرف ان کا اختیار ہونا چاہیے ۔ اس راج ہٹ کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے پی ایم ڈی سی کو راتوں رات توڑ ڈالا ۔ جب اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تو عمران خان کی راج ہٹ بالک ہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی اور وہ کسی صورت بھی پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اس کے لیے وہ ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں جن میں عدالت کے حکم کو نہ ماننا بھی شامل ہے ۔ اس ہٹ دھرمی کے تحت انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہوا ہے کہ پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار کو ان کے دفتر میں نہ بیٹھنے دیں ۔ منگل کو تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم بھی جاری کردیا کہ پی ایم ڈی سی کے دفتر سے ضلعی انتظامیہ ، وفاقی وزارت صحت اور دیگر سرکاری محکموں کے کارندے دور ہی رہیں ۔ یہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نرمی کا مظاہرہ کیا کہ صاف ، صریح اور شعوری توہین عدالت کے باوجود سیکریٹری صحت ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور دیگر سرکاری افسران کے خلاف توہین عدالت کی سزا نہیں سنائی ۔ اصولی طور پر تو بار بار توہین عدالت پر ان سرکاری عمال کو نہ صرف پابند سلاسل کردینا چاہیے تھا بلکہ انہیں نوکری سے بھی برخاست کرکے انہیں کسی بھی عوامی خدمت کے شعبے کے لیے ہمیشہ کے لیے نااہل کردینا چاہیے تھا ۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ جو بھی حکمراں آتا ہے وہ اپنے ذاتی مقصد کے لیے قومی اداروں کی تباہی سے گریز نہیں کرتا ۔ آصف علی زرداری کو ضیاء الدین اسپتال میں دوران قید ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے والے ڈاکٹر عاصم نے زرداری کے دور اقتدار میں کچھ ایسا ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ کیا تھا ۔ جب ان کا بس ہائر ایجوکیشن کمیشن پرنہیں چلا تو انہوں نے سندھ میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کردیا ۔ اب ڈاکٹر عاصم نے نجی تعلیمی بورڈ بھی بنالیا ہے اور آصف علی زرداری کی معاونت سے سرکاری تعلیمی بورڈز کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تباہ کررہے ہیں ۔ عمران خان ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئے تھے مگر ان کے سارے کام وہی ہیں جو گزشہ حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔ آخر وہ اپنی ذاتی خواہش کے لیے کیوں ملک کے اہم ترین ادارے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ عمران خان کی انا کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کے لائسنس کی توسیع نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے ان کی بیرون ملک ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں اور اس طرح ملک خطیر زرمبادلہ کے ایک ذریعے سے محروم ہوگیا ہے ۔ اسی طرح نئے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو بھی پریکٹس کرنے کا لائسنس جاری نہیں کیا جاسکا ہے اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ اب عمران خان اپنی بالک ہٹ اور راج ہٹ سے باز آجائیں اور پورے ملک کا وزیر اعظم بن کر کام کریں۔