عبدالعزیز غوری

198

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے شاہینوں کے لیے دعا کی تھی کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
مردِ قلندر کی دعا قبول ہوئی۔ خاور کی امیدوں کے مرکز پاکستان سے ایسے شاہین صفت نوجوان اٹھے جو طوفان آشنا بھی ہیں اور جن کے بحر کی موجوں میں اضطراب بھی ہے، جو جذبۂ جنوں اور شوقِ شہادت سے سرشار بھی ہیں۔
انہی شاہین صفت نوجوانوں کے قائد اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ ظفر جمال بلوچ 30 جون 2016ء کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر اپنے رب سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔
ناظم اعلیٰ ظفر جمال کے دورِ نظامت میں ٹنڈوآدم جمعیت کی نظامت اور بعد ازاں ضلع سانگھڑ کے نگراں کی ذمہ داری بھی میرے کاندھوں پر تھی۔ اُس زمانے کی بہت ساری باتیں اور یادیں ان سے وابستہ ہیں۔ دل نے چاہا کہ وہ یادیں دوستوں کی نذر کروں۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اس مہم کو سر کرلیا تھا۔ بھٹو کی فاشسٹ حکومت اسلامی جمعیت طلبہ سے نالاں تھی۔ ملک کے بیشتر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ مسلسل کامیاب ہورہی تھی۔ یہ صدمہ بھٹو کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ دورِ جمعیت میں ہم پر انقلاب کا ایسا نشہ چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے سوا نہ کوئی چیز نظر آتی تھی اورنہ ہی نظروں میں جچتی تھی۔
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
ہم بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا گئے، باطل قوتوں کے طاقتور ہونے کا گمان تک دل میں نہ گزرا۔ جوانی کا جوش تھا، دل و دماغ میں تحریکی لٹریچر سمایا ہوا تھا، تقریر کرتا تو بے لگام مسلسل کئی گھنٹے بولتا چلا جاتا۔ جو بھی راستے میں حائل ہوتا اسے بلڈوز کرتا ہوا گزر جاتا۔ جماعت کے مربی محبت کی بنا پر مجھے ہاتھ ہلکا رکھنے کی تلقین کرتے مگر میں اس کو مداخلت سمجھتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مداہنت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
1973ء میں ظفر جمال صاحب نے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے ضلع سانگھڑ کا پہلا دورہ کیا تھا۔ وہ بذریعہ ٹرین ٹنڈوآدم پہنچے تو ان کو ایک بڑے جلوس کی شکل میں اسٹیشن سے شہر لایا گیا۔ وہاں ہمارے دو ساتھیوں تنویر احمد نقوی مرحوم (جو بعد میں بلدیہ کراچی میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے) اور مصباح الحق ندیم (حال مقیم کراچی) نے اپنی گرفتاریاں پیش کیں۔ یہ دونوں حکومت کے زیرعتاب اور پولیس کو مطلوب تھے۔ دوستوں کی خواہش تھی کہ ان کو جلسہ یا جلوس میں پولیس کی تحویل میں دیا جائے۔ ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے ناظم اعلیٰ کی موجودگی میں گرفتاریاں پیش کیں۔ تنویر احمد نقوی مرحوم نے اپنی سابقہ جماعت چھوڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ دونوں سینٹرل جیل حیدرآباد میں تھے۔ جمعیت نے نیو علی گڑھ کالج ٹنڈوآدم کی طلبہ یونین کے انتخابات میں تنویر احمد نقوی مرحوم کو جنرل سیکرٹری اور مصباح الحق ندیم کو نائب صدر کی پوسٹ پر نامزد کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل کے ساتھ یہ دونوں جیل میں ہوتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ یہ زمانہ اسلامی جمعیت طلبہ کے عروج کا زمانہ تھا۔ جس روز ساتھیوں نے گرفتاری پیش کی اُس روز جمعیت کا جلسہ عام تھا۔ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کی اور ذاتی طور پر بھی پیغام بھیج دیاکہ جلسہ مؤخر کردیا جائے۔ ہم نے انتظامیہ پر واضح کردیا کہ جلسہ ہر صورت میں ہوگا۔ مقامی انتظامیہ اتنی جرأت نہیں کرپارہی تھی کہ جمعیت کے جلسے کو روک دے یا جلسہ درہم برہم کردے، اور نہ ہی جمعیت اتنی کمزور تھی کہ حکومت کی گیدڑ بھبکیوں میں آکر جلسہ منسوخ کردے۔ مجھے خدشہ تھا کہ حکومت آخری حربے کے طور پر واپڈا کو استعمال کرے گی تاکہ دورانِ جلسہ بجلی منقطع کرکے جلسے کے انتظامات درہم برہم کردے، لہٰذا حفظِ ماتقدم کے طور پر گیس بتیوں اور مائیک کی بیٹری کا پہلے سے انتظام کیا ہوا تھا۔ جلسہ گاہ سج گئی، لوگ جوق در جوق آرہے تھے۔ صوبائی ناظم گلزار احمد منگی اور ناظم اعلیٰ ظفر جمال بلوچ بھی تشریف لاچکے تھے۔ جلسے کی کارروائی شروع ہونے والی تھی، مجھے ایک مخبر دوست نے خبر دی کہ تھانے میں پی پی کے جیالوں نے جلسے میں گڑبڑ کرنے اور جلسہ درہم برہم کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے، جلسے کے آغاز کے فوراً بعد وہ لوگ آئیں گے۔ میں نے کسی سے بھی تذکرہ نہ کیا بلکہ جلسہ شروع ہوتے ہی میں نے مائیک سنبھالا اور کارکنان کو منصوبے سے آگاہ کیا۔جلسہ گاہ فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ نعروں کا شور تھما اور تلاوتِ کلام پاک سے کارروائی کا آغاز ہوا۔
ظفر جمال بلوچ نے اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا:
’’وہ غیرت والا بھٹو، وہ عزت والا بھٹو، وہ جرأت والا بھٹو، وہ ہزار سال تک کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے جنگ کرنے والا بھٹو مرگیا، اور اس کی لاش سے ایک ظالم بھٹو، ایک سفاک بھٹو اور اپنے اقتدار کے لیے ملک کو دولخت کرنے والے بھٹو نے جنم لیا۔ وہ کہتا ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور لاکھوں شہیدوں کے ملک پاکستان میں سوشلزم نافذ کروں گا۔۔۔ بھٹو صاحب سن لو! جب تک جمعیت زندہ ہے تمہارا یہ خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا‘‘۔
’’زندہ ہے جمعیت زندہ ہے‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ سامعین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ظفر صاحب کی تقریر کیا تھی ایک بہتا ہوا دریا تھا۔ مجمع تقریر کے سحر میں گم تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھی۔ آدھی رات گئے جلسے کا اختتام ہوا۔ ہر ایک کی زبان پر ظفرجمال بلوچ کی تقریر کا چرچا تھا۔ انتظامیہ خاموش تھی اور پیپلزپارٹی سوگ میں۔
ظفر جمال بلوچ منصورہ ہالا چلے گئے۔ دوسرے روز 18 اگست کو شہداد پور میں جمعیت کی ضلعی تربیت گاہ میں ظفرجمال بلوچ کو شریک ہونا تھا۔ ٹنڈوآدم کے ساتھیوں کو بھی شرکت کے لیے شہدادپور جانا تھا۔ اُدھر ہمارے شہداد پور پہنچنے سے پہلے ہی پولیس نے پورے ریلوے اسٹیشن کو اپنے نرغے میں لے لیا تھا، مجھے اندازہ ہوا کہ پولیس یا تو ہم کو گرفتار کرے گی یا ظفر بھائی کو گرفتار کرنے آئی ہے، مگر شہداد پور جمعیت کے ناظم شبیر احمد راجپوت نے یہ کہہ کر میرا شبہ رفع کردیا کہ میری ایس ایچ او قادری صاحب سے بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایک اشتہاری ملزم کی تلاش میں ہیں۔ مگر میرا دل نہ جانے کیوں مطمئن نہیں ہوا۔ ٹنڈوآدم جمعیت کا کارواں تربیت گاہ پہنچا ہی تھا کہ ظفر جمال بلوچ بھی ہالا سے بذریعہ سڑک تربیت گاہ پہنچ گئے۔ مولانا وصی مظہر ندوی صاحب نے درس قرآن کا آغاز کیا ہی تھاکہ سادہ لباس میں پولیس کے گماشتے آئے اور انہوں نے ظفر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، ظفر صاحب ان سے ملنے کمرے سے باہر گئے، ہم بھی ان کے ساتھ ہوگئے، ظفر صاحب نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ یہ سنتے ہی کارکن مشتعل ہوگئے اور حکومت کے خلاف نعروں کا نہ تھمنے والا شور شروع ہوگیا۔ میں بضد تھا کہ وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہوگی۔ قبل اس کے کہ ہاتھا پائی کی نوبت آتی ظفر صاحب نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا اور ہمیں صبر کی تلقین کی، مگر کارکن کسی صورت بھی خاموش رہنے کو تیار نہیں تھے، وہ حکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ نعرے لگاتے ہوئے فرسٹ فلور سے نیچے آئے تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے پولیس کی جیپ ظفر صاحب کو لے جانے کے لیے کھڑی تھی۔ پولیس فوری طور پر ظفرصاحب کو جیپ میں سوار کرانے پر تلی ہوئی تھی، ہمارا اصرار تھا کہ ظفر صاحب پہلے تقریر کریں گے بعد میں جیپ میں سوار ہوں گے۔ آخرکار ہمارا پلہ بھاری رہا، پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ ظفر صاحب نے کارکنوں کو صبر کی تلقین کی اور پروگرام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہمیں معلوم تھا کہ ہمارا راستہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کٹھن اور دشوار راستہ ہے۔ ہماری جنت شدائد میں گھری ہوئی ہے، گرفتاریاں اور جیل ہماری منزل کو کھوٹا نہیں کرسکتیں، شہادت ہماری آرزو بھی ہے اور منزل بھی‘‘۔ انہوں نے ایک بار پھر کارکنوں کو صبر کی تلقین اور پروگرام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور جیپ میں سوار ہوگئے۔ شبیر احمد راجپوت کو جب خود ان کی گرفتاری کا مژدہ سنایا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ میں ناظم اعلیٰ کی رفاقت میں وقت گزاروں گا۔ جمعیت کے کارکنان کے علاوہ سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے۔ ہر طرف سے حکومت پر لعنت کی بوچھاڑ تھی۔ ایک پُرجوش اور مشتعل جلوس کی معیت میں ظفر جمال بلوچ اور شبیر احمد راجپوت کو تھانے تک پہنچایا گیا اور رات گئے تک وہ سانگھڑ پولیس کی تحویل میں دے دیے گئے۔
23 اگست 1973ء ضلع سانگھڑ کے محب وطن شہریوں کے لیے بہت کٹھن اور اذیت ناک دن تھا۔ پورے ضلع سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور پیرصاحب پگارا کے سینکڑوں مریدوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ہر ظالم و آمر حکمران کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے حق کی بات کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایوب خان کی ظالم و جابر حکومت نے بھی یہی کیا تھا، سب سے پہلے اس نے میرٹ کا خون کیا، دو قومی نظریے اور اسلامی قومیت کو نظرانداز کرکے مقامی اور لسانی قومیتوں کو ہوا دی۔ سندھ میں آباد مہاجروں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔ مہاجر دشمنی میں اس نے کراچی کی حیثیت کو تبدیل کیا اور دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کرکے مہاجروں کو دیوار سے لگادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس آمر و ظالم کا وزیر خارجہ تھا، محب وطن لوگوں سے نفرت اسے آمر سے ورثے میں ملی تھی۔
ہمیں ڈی پی آر کے تحت گرفتار کیا گیا۔ غداری اور بغاوت کا شرمناک، نفرت انگیز اور من گھڑت مقدمہ بنایا گیا۔ اس میں دکھایا گیا کہ ہم سب سانگھڑ میں دھنی بخش نظامانی کی اوطاق پر جمع ہوگئے، وہاں مقررین نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ دو، پل توڑ دو، اندراگاندھی زندہ باد کے نعرے لگائے۔ یہ وہ قابلِ نفرت اور گھناؤنے الزامات تھے جو بھٹو کی فاشسٹ حکومت نے وطن پر جان نچھاور کرنے والے محب وطن پاکستانیوں کے سر تھوپے۔ دھنی بخش نظامانی کو نہ میں جانتا تھا اور نہ ہی کبھی دیکھا تھا۔ ہمیں ٹنڈوآدم سے علی الصبح گرفتار کیا گیا اور سانگھڑ پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ مقدمہ سانگھڑ میں درج ہوا تھا لہٰذا گرفتاری کا سہرا بھی سانگھڑ پولیس کے سر باندھا گیا۔
24 اگست 1973ء کو ہم سانگھڑ پولیس لاک اپ پہنچادیے گئے۔ وہاں ناظم اعلیٰ ظفر جمال بلوچ اور شبیر احمد راجپوت پہلے سے موجود تھے۔ آپس میں مل کر بہت خوشی ہوئی اور دل و دماغ کے کسی کونے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہم قیدی ہیں۔ کچھ دنوں بعد ہمیں سانگھڑ جیل منتقل کردیا گیا۔ جیل کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے۔ دس پندرہ کی گنجائش والے بیرک میں تیس سے زائد افراد کو ٹھوس دیا گیا۔ رات صرف ایک ہی کروٹ لے کر سونا نصیب ہوتا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے اذان اور پنجگانہ نماز باجماعت اور درسِ قرآن کا اہتمام کیا۔ جیل والے حیران تھے کہ یہ کیسے قیدی ہیں جنہیں نہ اپنی گرفتاری کی پروا ہے، نہ ہی اپنے بچوں کی فکر، اور نہ ہی کسی تکلیف کی شکایت، بس ایک ہی دھن ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام غالب ہو اور اللہ راضی ہوجائے۔
ایک روز حکومت کے نمک خوار جیلر نے قتل کے کیس میں نامزد چند ملزمان کو ورغلایا کہ یہ جماعتی نہ صرف بھٹو کے دشمن ہیں بلکہ یہ تمہارے بھی دشمن ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ تم کو پھانسی ہو یا عمرقید کی سزا۔ تم دیکھتے نہیں ہو انہوں نے جیل کو مسجد میں تبدیل کردیا ہے اور مسجد تو ہمیشہ آباد رہتی ہے۔ اس نے ان کو یہ کہا کہ اگر تم جلد رہا ہونا چاہتے ہو تو ان کو اذان دینے اور نماز باجماعت ادا کرنے سے منع کرو۔ بات ان کی زندگی کی تھی، فوراً سمجھ میں آگئی اور انہوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہاں اذان اور نماز نہیں ہوگی، تم ہمارے دشمن ہو، تم چاہتے ہو کہ ہم ہمیشہ جیل میں سڑتے رہیں یا پھانسی چڑھ جائیں۔ شور جب زیادہ ہوا تو قتل کے مقدمے میں نامزد ایک خدا ترس ملزم نے شور مچانے والوں کو خاموش کرادیا اور دھمکی آمیز لہجے میں ان کو چیلنج کیا کہ تم نماز اور اذان سے روک کر دکھاؤ۔۔۔ اور ہم سے کہاکہ آپ اذان بھی دیں، نماز بھی باجماعت جاری رکھیں اور درس قرآن بھی۔ اس طرح یہ سلسلہ بلاناغہ چلتا رہا۔ سنجھورو سے حافظ عبدالرحمن بھی ڈی پی آر کے تحت گرفتار تھے، ناظم اعلیٰ ظفر جمال بلوچ جب تک جیل میں رہے وہ مسلسل حافظ صاحب کو قرآن پاک سناتے رہے۔ ان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیاکہ لوگ کیا کہیں گے کہ ملک گیر تنظیم کا سربراہ قرآن پاک میں اپنی غلطیوں کی اصلاح کروارہا ہے۔ اس سے ظفر صاحب کے بڑے پن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہم نے جیل میں دن بڑے اطمینان سے گزار ے ۔ ظفر صاحب سے تحریک کے بارے میں کھل کر باتیں ہوتیں۔ ظفر صاحب کو مطالعے کا بے حد شوق تھا، فارغ اوقات میں وہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے رہتے تھے، اچھی کتاب ان کی کمزوری تھی۔ اس زمانے میں مجھے بھی مطالعے کا جنون تھا، کیونکہ میرے پاس لٹریچر کی تعلیم کے سوا کوئی تعلیم نہیں تھی، اس لیے مجھے اپنی تقریر، گفتگو اور بحث کے لیے ہر وقت مطالعے کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔
اس دوران جیل میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، انتظامیہ چند قیدیوں کو سزا کے طور پر سکھر جیل منتقل کرنا چاہتی تھی، انہوں نے جانے سے انکار کردیا اور جیل پر قبضہ کرلیا۔ پھر کیا تھا، ایک طرف سے پتھراؤ اور دوسری طرف سے آنسو گیس کے شیل۔ ہماری بیرک سب سے زیادہ متاثر تھی، پوری بیرک دھویں سے بھر گئی۔ پانی نے ہماری بہت مدد کی۔ آنکھوں اور جسم کی جلن کو پانی سے ٹھنڈا کیا۔
جیل میں نہ اپنے قید ہونے کا کبھی احساس ہوا اور نہ کبھی اپنی ناکامی کا خیال گزرا۔ اپنی کامیابی پر سوفیصد پختہ یقین تھا۔ قرآن پاک میں اللہ کا فرمان بار بار سامنے آتا کہ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر مومن ہو‘‘۔ اور اپنے مومن ہونے میں کبھی شبہ نہیں ہوا۔ میرا تو اول روز سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ غداروں اور وفاداروں کا انجام ایک جیسا نہیں ہوگا۔ ہم جیسے بھی ہیں وفادار ہیں۔ کمزور ہیں، مگر اللہ‘ رسولؐ اور دین کے وفادار ہیں۔ ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم والی صف میں کھڑے ہیں۔ ہم جہادی ہیں، شہادت ہماری منزل ہے، ہمیں نہ کوئی ڈرا سکتا ہے، نہ کوئی ہمارے پایۂ ثبات کو متزلزل کرسکتا ہے۔ ان شاء اللہ ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر قائم رہے ان کے لیے کوئی خوف اور کوئی غم نہیں، یہی کامیاب لوگ ہیں۔‘‘
ظفر جمال بلوچ بڑے دلنشین انداز میں درسِ قرآن دیتے۔ وہ بہت ہی نفیس انسان تھے۔ بڑے رحم دل، رقیق القلب اور ملنسار تھے مگر تحریکی معاملات میں بڑے سخت تھے۔ ان کی دوررس نگاہیں اُس وقت جو کچھ دیکھ رہی تھیں بعد میں درست ثابت ہوا۔ انہوں نے طلبہ یونین اورجمعیت کی قیادت میں فاصلہ رکھا اور یونین کو کبھی بھی تنظیمی معاملات پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے جن لوگوں کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ صحیح نکلے۔ کوئی کسی کے آستانے پر جھکا اور کوئی کسی کے درِدولت کا اسیر ہوگیا۔ کاش طوفانوں سے ٹکرانے والے یہ لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تو آج ملک کی سیاسی صورت حال کچھ اور ہوتی۔ ظفر جمال بھائی نے اپنی بساط کے مطابق بہت احتیاط کی اور جمعیت کو اقتدار کی نذر ہونے سے بچایا۔ ظفر صاحب سے میرا تعلق جیل ہی میں قائم ہوا۔ باہر کی دنیا میں میرا اُن کے ساتھ وقت نہیں گزرا۔ بس میں کارکن تھا اور وہ ناظم اعلیٰ، مگر ذہنی ہم آہنگی کی بنا پر ہم بہت جلد ایک دوسرے کے قریب آگئے اور مجھے خوشی ہے کہ وہ مجھے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور میری تقریروں کو بغور سنتے اور بعد میں تحسین فرماتے تھے۔
سانگھڑ جیل میں ہم مطمئن تھے کہ ہمیں ذاتی تربیت، مطالعہ قرآن و لٹریچر کے علاوہ قیدیوں میں دعوتی کام کا موقع ملا تھا۔ قیدیوں کی اکثریت نے ہماری باتوں سے اتفاق کیا۔ وہ مسلمان تو تھے لیکن ہماری صحبت نے ان پر توحید کا رنگ گہرا کردیا۔ ایک خدا پر ان کا یقین پختہ ہوگیا۔ انہوں نے تسلیم کرلیا کہ اس ظالمانہ نظام میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔ اسلام ہی وہ نظام حیات ہے جو انسانوں کو عزت سے نوازتا ہے۔ یہاں نہ کوئی آقا ہے اور نہ کوئی غلام، نہ کوئی حاکم ہے اور نہ کوئی محکوم، نہ کوئی ذلیل ہے اور نہ کوئی عزت والا۔۔۔ سب ایک ہی معبود اللہ کے بندے ہیں، سب کو اس کے احکامات کے سامنے سرجھکانا ہے۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے، اور اللہ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ عزت والا ہے جو سب سے زیادہ خدا ترس اور متقی ہے۔
سانگھڑ سے ہمیں سینٹرل جیل بیرک نمبر 16 کراچی منتقل کردیا گیا۔ یہ بیرک کراچی سینٹرل جیل کا سب سے کشادہ اور صاف ستھرا حصہ تھا۔ اس ہال میں سو سے زیادہ قیدیوں کی گنجائش تھی۔ یہ بیرک جماعت اسلامی، پیرپگارا کے مریدوں اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کارکنوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان سب کے علاوہ ظفر جمال بلوچ، شبیر احمد راجپوت اور بچل لغاری بھی موجود تھے۔ یہ سب اپنے وقت کے بہترین مقرر تھے۔ ظفر صاحب کا انداز تو سب سے منفرد تھا۔ وہ صاحبِ طرز خطیب تھے۔ بچل لغاری صاحب ذہنی طور پر تحریک سے بہت قریب تھے مگر پیرصاحب کا مرید ہونے کے باعث وہ آگے بڑھنے سے قاصر تھے۔
ظفرجمال بلوچ میری نظامت میں گرفتار ہوئے تھے، مجھے اس کا بہت قلق تھا۔ اس وقت میں کارکن اور وہ ناظم اعلیٰ تھے مگر جیل میں یہ تعلق ذاتی دوستی اور رفاقت میں تبدیل ہوگیا۔ وہ میرے ہم عمر تھے یا شاید عمر میں کچھ چھوٹے، مجھے بہت پیار کرتے تھے، انہیں میرا اندازِ تقریر بہت پسند تھا۔ ان کی حوصلہ افزائی نے میرے اندر مزید بہتری پیدا کی۔ فجر، ظہر کے بعد درسِ قرآن جو ہم باری باری دیتے اور رات بعد نماز عشاء ظفر صاحب کی زیر صدارت تقریری مقابلے جاری رہتے، انعامات تقسیم ہوتے، یہ محسوس ہوتا گویا کسی کالج یا کسی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں تقریری مقابلے ہورہے ہیں۔ تقریر کے دوران پورا ہال نعروں سے گونج اٹھتا۔ نعروں کی آواز باہر تک جاتی تو جیل سپرنٹنڈنٹ فوراً آتا کہ سب کچھ کرو مگر اتنے زور سے نعرے نہ لگاؤ کہ باہر آواز جائے، میرے لیے مسائل پیدا ہوں گے اور میں زیرعتاب آجاؤں گا۔
تقریروں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ظفر صاحب کی ایک تقریر کا موضوع تھا ’’اسلام کا انسانِ مطلوب‘‘۔ تقریر کیا تھی ایک بہتا ہوا دریا تھا، جذبات کا ایک سیلاب تھا جو امڈ آیا تھا۔ الفاظ کے اتار چڑھاؤ اور زیرو بم، تقریر ہر لحاظ سے متاثر کن تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بدر و احد سے کربلا تک کے تمام کردار یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی۔ ظفر صاحب کی تقریروں میں یہ تقریر معرکۃ الآرا تھی، آج تک اس کا اثر قائم ہے۔
ظفر صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو محسوس ہوا کہ ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ ہے اس کے پیچھے کوئی کرب چھپا ہوا ہے، مگر انہوں نے کبھی اپنے اندرونی دکھ کا اظہار نہیں کیا، زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ زور سے ہنس دیے۔ ان کی مسکراہٹ ہی ان کے درد کا درماں تھی۔ ان کا دورِ نظامت بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ امید تھی کہ وہ تحریک میں کوئی بڑا کردار ادا کریں گے، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔۔۔ کیوں؟ اس کا جواب کون دے گا؟ یہ تحریک کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ نامعلوم کتنے گوہرِ نایاب گردشِ زمانہ کی نذر ہوگئے۔
تحریکی زندگی میں جہاں خوشگوار یادیں ہیں وہاں کچھ تلخ حقائق بھی ہیں۔ ظفر صاحب نے ساری زندگی پنجاب میں گزاری۔ اگر ان سے پنجاب میں ہی تحریکی کام لیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ سید مودودیؒ کے بقول ’’بہتا ہوا دریا جمود کی وادی میں ٹھیر کر تالاب بن گیا‘‘۔ آج تحریک تنظیم میں ڈھل رہی ہے، اس کا کتنا نقصان اور کیا فائدہ ہے؟ موجودہ تنظیمی ذمہ داران کے لیے یہ ایک سوال ہے! ظفر جمال بلوچ ہمارے درمیان نہیں رہے مگر وہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی باتیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ وہ اپنے رب سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
nn