افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان نفرت کاماحول پیدا کرنے کی کوشش

144

تمام تر رنجشوں کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے، اگرچہ غنیم یہی چاہتا ہے۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں۔ اخوت و محبت کے جذبات عوام کے سینوں میں بھی موجزن ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے کی کوششیں ہوئیں اور خاصی تلخی اور عدم برداشت پر مبنی رویہ دیکھا گیا۔ افغانستان کی تزویراتی اہمیت زارِ روس، بعد ازاں بالشویکوں اور ہند پر قابض انگریزوں کے نزدیک یکساں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی حساسیت و اہمیت میں کمی واقع نہ ہوئی۔ بڑی طاقتوں کی خواہش و کوشش تھی کہ افغانستان یا تو ان کی کالونی و مقبوضہ بنے یا پھر غیر جانبدار پالیسی اپنائے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں انگریز کی توسیع پسند پالیسیاں جاری رہیں، انفرااسٹرکچر قائم کیا، ڈیورنڈ لائن جیسی سرحدی لکیر کھینچی گئی۔ پیش ازیں 1839ء اور 1879ء کی اینگلو افغان جنگوں میں انگریزوں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ کوئٹہ، ژوب، لورالائی، پشین اور قلعہ عبداللہ کی گزرگاہیں بھی ان کی توسیع پسندانہ فوجی مہمات کے لیے خطرات اور نقصانات سے خالی نہ تھیں۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں کی وجہ سے انگریز فوج کی بڑی تعداد موت کے منہ میں چلی گئی۔ گھوڑوں، اونٹوں اور اسلحہ کے ضیاع کی الگ تفصیل ہے۔ چنانچہ اس نقصان اور مشکل کے پیش نظر پورے بلوچستان میں جہاں جہاں ضرورت پڑی سڑکوں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائنیں بچھادی گئیں۔ انگریز عملاً مختلف علاقے ہتھیا چکا تھا۔ اس طرح 14 اپریل 1888ء کو کوئٹہ سے چمن تک ریلوے لائن بچھانے کا آغاز کردیا اور کوژک (خوجک سرنگ)کے مقام پر شاہکار سرنگ بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس سرنگ کی لمبائی 2.43 میل ہے۔ 17 اپریل 1890ء کو اس سرنگ پر کام مکمل ہوا۔ گویا چمن اور قلعہ عبداللہ کا علاقہ ریل کے ذریعے بھی کوئٹہ سے جوڑ دیا گیا۔ انگریزی تقسیم کے باوجود دونوں جانب کے عوام بہرحال تقسیم نہ ہوئے۔ رشتہ داریاں، تجارت اور نقل و حمل کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ گویا دونوں جانب کے عوام کا یہ جوڑ مذہبی اورنہ ہی لبرل انتہا پسندی توڑ سکی ہے۔ اگرچہ دانستہ اور غیر دانستہ حماقتیں اور شرارتیں بہت ساری ہوئیں۔
تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور سفارتی اتار چڑھاؤ وقتاً فوقتاً دیکھا گیا ہے۔ سرحد پر اشتعال انگیزی اور اسے مہمیز دینے کی سعی بارہا کی جاچکی ہے۔ اب تو کیفیت حالتِ جنگ کی سی ہے۔
18 اگست 2016ء کو بلوچستان کے بارے میں نریندر مودی کے بیان اور براہمداغ بگٹی کی جانب سے مودی کی تقریر کی حمایت کے خلاف مظاہرے ہوئے تو سرحدی شہر چمن میں بھی ایک مظاہرہ ہوا۔ یہ ریلی پاک افغان سرحد پر ’’بابِ دوستی‘‘ پہنچ گئی۔ مودی اور براہمداغ کی تصاویر اٹھائے مظاہرین نے افغان سرحد کی طرف رخ کرکے بھارت کے خلاف نعرے لگائے، بھارتی پرچم نذر آتش کیا۔ میرے خیال سے مظاہرین کی جانب سے ’’بابِ دوستی‘‘ پر تماشا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان بے قید اور اوباش قسم کے لوگوں کو سرحد تک جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ یقیناًمقامی انتظامیہ نے اس ضمن میں غفلت و لاپروائی برتی ہے۔ 18 اگست کا دن افغانستان میں یوم آزادی و استقلال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 18 اگست 1919ء کو برطانیہ نے افغانستان کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کرلیا تھا۔ چنانچہ افغانستان کی جانب سے بھی اسی منش کے لوگ ’’دوستی گیٹ‘‘ پہنچ گئے۔ انہوں نے اشتعال انگیز نعرے بلند کیے، پاکستان کا جھنڈا جلایا، غالباً پتھراؤ بھی کیا۔ اس وجہ سے بابِ دوستی پاکستانی حکام کی جانب سے بند کیا گیا۔ چار فلیگ میٹنگیں اب تک ہوچکی ہیں، مگر کوئی نتیجہ نکل نہ سکا۔ ان اجلاسوں میں دونوں جانب کے سیکورٹی حکام شریک ہوتے ہیں۔ بعض افغان سیکورٹی حکام پہلے ہی افغان سرحدی ضلع اسپن بولدک کی ’’ویش منڈی‘‘ میں پاکستانی کرنسی میں کاروبار پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد درجنوں پاکستانی شہریوں کو قندھار سے پاکستان بدر کیا گیا۔ ان کی دستاویزات ضائع کردی گئیں۔ اطلاعات ہیں کہ ان افراد پر تشدد بھی کیا گیاہے۔ نیٹو، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کی دونوں جانب قطاریں لگ گئیں۔ افغانستان کی طرف سے آنے والے سینکڑوں مریض اور زخمی سرحد کھل جانے کے انتظار میں تڑپ اور سسک رہے ہیں۔ یہ لوگ علاج معالجے کی خاطر کوئٹہ کے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ یومیہ بیس پچیس ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔ بارہ ہزار افراد چمن کے مزدور اور تاجر ویش منڈی جاتے ہیں، جو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ گویا مقامی تجارت کو زبردست دھچکا لگا ہے اور دو طرفہ تجارت بند ہوگئی ہے۔ یہ تکلیف، اذیت اور تجارتی خسارہ محض دونوں جانب کے اوباشوں کی خرمستی کی وجہ سے اٹھانا پڑا۔ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر محمد عمر ذخپلوال کہہ چکے ہیں کہ جنہوں نے پاکستانی پرچم نذرِ آتش کیا وہ افغان حکومت اور عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ سفیر صاحب سے کلی اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ افغانستان کے اندر ایک ذہن فتنہ انگیزی پر کام کررہا ہے اور صوبہ قندھار اور سرحدی اضلاع میں بعض افغان حکام پاکستان مخالف جذبات ابھارتے ہیں۔ ان کی توجہ شرانگیزی پر مرکوز ہے۔ قبائل کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے جتن کیے جاچکے ہیں اور یقیناًپاکستان کی جانب سے بھی بابِ دوستی پر احتجاجی ہجوم بغیرکسی کی شہ کے نہیں گیا ہوگا۔ افغان حکومت کتنی خودمختار اور آزاد ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ حامد کرزئی اپنی حکومت کی آخری مدت میں امریکی افواج کے افغانستان میں مزید قیام میں توسیع کے معاہدے پر دستخط سے انکاری ہوگئے تھے۔ یقیناًانہوں نے ایسا افغانیت کے جذبے کے بجائے سیاسی
(باقی صفحہ 41پر)
اغراض کے لیے کیا کیونکہ ان کی رخصتی قریب تھی۔ اشرف غنی نے جونہی صدارت کا حلف اٹھایا، معاہدے پر دستخط کردیئے۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اشرف غنی دراصل ان ہی کے دستخط سے صدر بنے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ خود مہرہ ہیں، البتہ اشرف غنی پر خوب دھونسجما رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اشرف غنی حکومت چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ اہل تو کوئی نہیں ہے۔ یہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تشکیل کی ہوئی حکومت ہے جس میں جس کا جتنا بس چلا، اپنا حصہ بٹور لیا۔عبداللہ عبداللہ نے خود کو چیف ایگزیکٹو بنانے کی ہٹ دھرمی دکھائی اور جان کیری نے ان کی تمنا پوری کردی۔ افغان آئین اور عوام کی رائے کے برخلاف ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ اس طرح عبداللہ عبداللہ اشرف غنی کی حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے۔ وزارتِ داخلہ و خارجہ سمیت آدھی وزارتیں تو عبداللہ عبداللہ کے ہم خیال لے چکے ہیں۔ حیرت ناک واقعہ تو حالیہ ’’وارسا‘‘ کانفرنس میں پیش آیا جہاں افغانستان کی نمائندگی صدر یعنی اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو یعنی عبداللہ عبداللہ نے مشترکہ طور پرکی۔ گویا افغانستان کی نشست پر دونمائندے جلوہ افروز ہوئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت کتنی ’’آزاد اور خودمختار‘‘ ہے۔ چنانچہ جہاں ایک غیر نمائندہ حکومت ہو وہاں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بناؤ کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ گویا جس کی افغان حکومت پر بالادستی قائم ہے وہ بھارت ہے، اور بھارت کی فطرت شر وفساد سے لبریز ہے۔ بہرکیف پاکستان اور افغان عوام کے درمیان نفرت اور ٹکراؤ کا ماحول بنانے کی جس جانب سے بھی مکروہ تدبیریں ہورہی ہیں وہ بہرحال کامیاب نہیں ہوں گی۔ باب دوستی کی بندش سے جس طرح عوام کا معاشی قتل و استحصال ہوا، یہ شرپسند لوگ اور ان کو اُبھارنے والے اس کے ذمہ دار ہیں۔