عدالت چینی چوروں سے نجات دلائے

276

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بڑے بڑے لوگ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے آٹا چینی بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس تو درست دیے ہیں لیکن پھر کیا ہونا چاہیے؟ کیونکہ عدالت کا کام برہمی نہیں ہے اب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی برہمی کا اظہار کرنے لگے ہیں لیکن ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ برہمی کا کام عوام کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ وزیراعظم نے شکر کی برآمد کی اجازت دی تھی تاہم یہ شرط بھی عاید کی تھی کہ برآمد کرنے کی وجہ سے ملک میں شکر کی قلت پیدا نہ ہو جائے۔ مزید یہ کہ یہ بات کابینہ کو بتائی گئی لیکن کس نے بتائی یہ نہیں پتا چل سکا۔ اسی طرح وزیراعظم نے کابینہ میں یہ تو کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ان کا رویہ وہی ہے کہ اب کی مار… کہتے ہیں کہ متعلقہ عناصر نے دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھا تو سخت اقدام کیا جائے گا۔ لیکن وزیراعظم کا سخت ترین اقدام بھی تو شکر مافیا کے لیے انعام تھا یعنی ایک وزارت لے کر دوسری دے دی گئی۔ وزیراعظم تو خود چینی اور آٹا مافیا کے حصار میں ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ ان کے دبائو سے آزاد ہے لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ وزیراعظم اور قوم کو چینی چوروں سے نجات دلائے گی۔ جہاں تک چیف جسٹس کی اس بات کا تعلق ہے کہ بڑے بڑے لوگ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں۔