لاک ڈائون، بے سمت اقدامات

308

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے احکامات پر صوبے میں لاک ڈاؤن مزید سخت کردیا گیا ۔ لاک ڈاؤن کی مزید سختی یہ ہے کہ شہر کی کئی شاہراہوں کو یا تو رکاوٹیں لگا کر بند کردیا گیا ہے یا پھر جگہ جگہ سے تنگ کردیا گیا ہے ۔ اب شہری پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورے صوبے میں سارے ادارے بند نہیں ہیں ۔ بینک ، اسپتال ، بندرگاہیں ، ہوائی اڈہ ، محکمہ موسمیات ، بڑے سپر اسٹورز ، کریانے اور دواؤں کی مقامی دکانوں کے ساتھ ساتھ ان کی تھوک مارکیٹیں، میڈیا ہاؤسز وغیرہ وغیرہ کھلے ہوئی ہیں ۔ ان سب میں کام کرنے والے افراد اپنے گھروں سے نکل کر کام کے مقام پر روانہ ہوتے ہیں اور شام کو اپنے گھروں کو واپس بھی ہوتے ہیں ۔ اب مراد علی شاہ بتائیں کہ شہر کی اہم شاہراہوں کو بلاک کرکے وہ کس طرح سے کورونا کے پھیلاؤ کو روکیں گے ۔ا س کا نتیجہ شہریوں کو پریشان کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ شہری کس طرح سے صبح اپنے کام کے مقامات پر جاسکیں گے اور شام کو کس طرح سے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے ۔ جن مقامات پر شاہراہوں کو رکاوٹیں لگا کر تنگ کردیا گیا ہے اور صرف ایک لائن میں ٹریفک گزرنے کی اجازت دی جارہی ہے وہاں پر گاڑیوں کا ہجوم ہوجاتا ہے اور پندرہ منٹ سے آدھا گھنٹہ اس مقام سے گزرنے میں لگ جاتا ہے ۔ کیا وزیر اعلیٰ سندھ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ کورونا کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے سماجی فاصلہ ہی انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس طرح سے تو وہ زبردستی لوگوں کا ہجوم جمع کررہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سید مراد علی شاہ کسی سمت کے بغیر اقدامات کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کا صرف ایک بات پر زور ہے اور وہ ہے لاک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ ۔ خود سید مراد علی شاہ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن اس طرح سے نہیں ہوا جس طرح سے ہونا چاہیے تھا ۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران جو غلطیاں ہوئی ہیں ، انہیں درست کیا جاتا۔ اس کے بجائے مزید غلطیاں کی گئی ہیں ۔ سید مراد علی شاہ صوبے کے منتظم اعلیٰ ہیں ، انہیں علم ہونا چاہیے کہ ان کے کس اقدام کے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ جس بے ہنگم انداز میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے ، اس کے مثبت سے زیادہ منفی نتائج مرتب ہوئے ہیں ۔ پورے صوبے میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں ، بہتر ہوتا کہ صوبے میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ سید مراد علی شاہ کا سارا زور اس پر ہے کہ کورونا پورے صوبے میں بری طرح پھیلا ہوا ہے ، سندھ میں کورونا کے مریض اس لیے کم ہیں کہ اس کے تشخیصی ٹیسٹ کم ہو رہے ہیں ۔ مراد علی شاہ کی یہ منطق اگر تسلیم کرلی جائے تو پورے صوبے میں نہ صرف کورونا کے مریض جا بجا نظر آرہے ہوتے ، بلکہ ان کی اموات بھی گھروں میں ہورہی ہوتیں ۔ مگر ایسا کہیں پر بھی نہیں ہے ۔ اب تو کورونا کا خوف اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ کسی کو عام نزلہ کھانسی بھی ہوجائے تو وہ کورونا کے ٹیسٹ کے لیے اسپتال کا رخ کرلیتا ہے۔ حکومت کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہاں پر کورونا کی وہ شدت نہیں ہے جو امریکا اور یورپ میں ہے۔ یہاں پر تو ویسے ہی درجہ حرارت 38 سنٹی گریڈ کو چھونے لگا ہے ۔اندرون سندھ تو اس سے بھی زیادہ گرمی پڑ رہی ہے ۔ اتنے زیادہ درجہ حرارت میں کورونا کیسے زندہ رہ سکتا ہے ۔ پاکستان کی صورتحال کے بارے میں تو وزیرا عظم عمران خان نیازی کے معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرز ا نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستان میں کورونا کے بارے میںلگائے گئے تخمینے غلط تھے اور یہاں پر کورونا کے مریض بھی کم ہیں اور اموات بھی خوش قسمتی سے کم ہی ہوئی ہیں ۔پاکستان میں کورونا سے ہونے والی اموات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ روزنامہ جنگ میں دو اپریل کو شایع ہونے والی ایک خبر میںبتایا گیا تھا کہ اس وقت تک کراچی میں کورونا کے نام پر نو افراد اموات کا شکار ہوئے تھے ۔ یہ سارے کے سارے افراد پہلے سے دیگر شدید بیماریوں کا شکار تھے ۔ ان میں سے کئی افراد کا کورونا کا ٹیسٹ ان کی موت کے بعد منفی بھی آیا تھا ۔ منگل کو ڈان کی ویب سائیٹ میں بتایا گیا ہے کہ حیدرآباد میں جس پہلے فرد کو کورونا کے باعث ہلاک شدہ ظاہر کیا گیا ، وہ بھی ایک سال سے فالج کا شکار تھا اور اس کا علاج جاری تھا ۔ اس کا بھی موت کے بعد کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا کے نام پر مرنے والے افراد کی تعداد مشتبہ ہے ۔ اسی طرح کورونا کے ٹیسٹ کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ہیں اور عالمی ادارہ صحت نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ مذکورہ فرد کو کورونا بھی ہے ۔