اور بھی غم ہیں زمانے میں کورونا کے سوا

393

ظفر عالم طلعت
ایک زمانہ تھا کہ آتش جوان تھا۔۔ جوانی دیوانی۔۔۔ نہ کوئی فکر نہ پریشانی۔۔۔ حافظہ لاجواب۔۔۔ زندگی کھلی کتاب۔۔ آنکھین چار (چشمے کے ساتھ)۔ باتین چٹ خارے دار۔۔ حاضر جوابی اور بزلہ سنجی عروج پر۔۔۔ فقرے بازی کمال پر۔۔۔ مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ یعنی شادی ہوگئی۔۔۔
۔۔شادی سے پہلے کی بات ہے کہ ہم ابن انشاء سے بہت متاثر تھے۔ خاص طور پر ان کی اردو کی آخری کتاب تو تقریباً ازبر تھی۔ ظاہر ہے کالم نگاری میں بھی اس کا رنگ جھلکتا تھا۔۔۔ کچھ کالم تو چھپ گئے۔۔ باقی چھپا لیے گئے۔ کیونکہ ہر کوئی ابن انشاء کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی لطف اندوز ہوسکتا ہے، اور نہ ہی برداشت کرسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے یار لوگوں کی ناراضی کا دھڑکا بھی تھا۔ مگر جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ شادی ہوگئی اور پھر چند سال کیا۔ چالیس سال کا قصہ ہے۔ نہ صرف کالم لکھنے لکھانے سے گئے بلکہ بقول شاعر۔۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔
لہٰذا پھر جو غم روزگار اور غم زمانہ لاحق ہوا تو۔۔۔۔
کیسی شاعری۔۔ کیسی کالم نگاری۔۔ کیسی حاضر جوابی۔۔ کیسی بزلہ سنجی۔۔۔ کہاں کا حافظہ۔۔ کہاں کی فقرے بازی۔۔
چودہ طبق روشن ہوگئے۔ بہت جلد ہوش ٹھکانے آگئے۔۔۔ سب کچھ چھوٹ گیا۔۔ سب کچھ لٹ گیا۔۔
پھر کیا تھا گوشہ گمنامی اور عافیت کوشی میں پناہ لے لی۔۔
اب جب کہ اس بات کو چالیس سال یعنی چالیسواں ہونے کو ہے۔۔ اور کرنے کو کچھ نہیں تو سوچا کہ دوبارہ کالم نگاری کی جائے۔۔ احباب نے بھی کافی حوصلہ افزائی کی۔۔ اور ہم نے بھی ان کی باتوں میں آکر تیراک نہ ہوتے ہوئے بھی کھلے اور گہرے سمندر میں چھلانگ لگادی۔۔ اب اللہ مالک ہے۔۔ ابھریں یا ڈوبیں۔۔ ابھی تو موجوں کے رحم و کرم پر ہیں۔۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔۔ یعنی کالم نگار کی بپتا۔۔
اب جو دوبارہ لکھنا شروع کیا تو ظاہر ہے کوئی کام بھی ہو آپ اوروں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ سے اور بیگم سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو خیر رحمن ورحیم ہے مگر بیگم کو تو موقع چاہیے۔۔ اللہ دے اور بندہ لے۔۔ فرمانے لگیں آپ کا کالم کوئی پڑھتا بھی ہے کہ نہیں۔۔ پتا نہیں کیا کیا اوٹ پٹانگ لکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے تو سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اب انہیں کیا پتا کہ ہماری تخیل پرواز کتنی بلند ہے۔ اگر کچھ نیچے ہوتی تو سر پر سے گزرنے کے بجائے بھیجے یعنی دماغ سے گزرتی اور سمجھ میں بھی آجاتی۔۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔
اب نتیجہ یہ ہے کہ اتنے کالم ہم پر نازل نہیں ہوتے جتنے مشورے ہماری بیگم ہمیں دے دیتی ہیں۔۔ کہ فضول لکھنے سے بہتر ہے کہ کچھ کام کی بات لکھیں۔۔
ہم نے پوچھا۔ مثلاً۔۔ کہنے لگیں۔ حالات حاضرہ۔۔ سیاست۔۔ معاشرتی مسائل وغیرہ۔۔ ہم نے کہا کہ حالات حاضرہ تو وہ لکھے جو خود حاضر ہو۔ ہم تو جب سے آپ کی زلف گرہگیر کے اسیر ہوئے ہیں۔۔ خود غیر حاضر ہیں۔۔
دوسرے سیاست پر لکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس میں دخل اندازی پولیس کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ رہ گئے معاشرتی مسائل تو ان پر پہلے ہی اتنا لکھا جاچکا ہے کہ مسائل سے زیادہ وسائل خرچ ہوگئے ہیں مگر حل ندارد۔۔۔ پھر معاشرتی مسائل کو تو آپ ہم سے زیادہ جانتی ہیں اور خود کفیل ہیں۔۔ آپ کیوں نہیں لکھتیں۔۔
کہنے لگیں بھئی یہ کام تو بہت مشکل ہے ہمیں تو بس ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے اور ان کو گھر پر ریپیٹ کرنا اچھا لگتا ہے۔ جیسے آپ کو خبریں سن کر ان کو پھیلانے میں مزہ آتا ہے۔۔۔ لو جی یہاں بھی بازی مات۔۔۔ لیکن اب اتنے مذاکرات اور مات کھانے کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہر وقت کا ہنسی مذاق اچھا نہیں ہوتا۔۔ اب کچھ سنجیدہ بھی لکھ لیا جائے۔ مگر کیا کریں کہ اس وقت کورونا کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔۔ اور لوگ پہلے ہی بہت سنجیدہ اور رنجیدہ ہیں۔۔ فکر مند اور پریشان بھی ہیں۔ ایسے میں اچھا یہی ہے کہ کسی کے چہرے پر مسکان سجادی جائے۔۔۔ اور کوئی بچوں کی طرح کھل کھلا کر ہنس دے۔ تاکہ ماحول میں جو اداسی چھائی ہے۔۔ اسے کچھ تو کم کیا جاسکے۔۔ اور لوگ کہیں کہ اس کورونا کی ایسی تیسی۔۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں کورونا کے سوا۔