صاحبو! اللہ خیر کرے۔ جب بھی وزیراعظم کا ذکر ہوتا ہے ہمیں میراثیوں کے لطیفے یاد آنے لگتے ہیں۔ آج کل وزیراعظم کی بڑی تعریفیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے اتنا بڑا تاریخی قدم اٹھایا ہے، وزیراعظم نے قوم سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا۔ آٹا، چینی بحران کے ذمے داران اپنے ہی وزیروں کی کرپشن کی رپورٹ وزیراعظم نے خود پبلک کردی۔ وزیراعظم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایک میراثی پڑوس کے گائوں میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ گائوں والوں نے سزا کے طور پر میراثی کو گنجا کردیا۔ میراثی واپس اپنے گائوں آکر کہنے لگا ’’اوئے کوئی دیگاں شیگاں پکائو میں حج کرکے آیا ہوں‘‘۔
حیرت ہے وزیراعظم کے ساتھیوں کا ’کروپشونا‘ ٹیسٹ پازیٹو آگیا۔ وہ ایک صادق اورامین وزیراعظم ہیں۔ وزرا تب کرپشن کرتے ہیں جب وزیراعظم خود کرپٹ ہو۔ نہ جانے یہ کس مہاتما نے کہا تھا۔ وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ چین نے اس لیے ترقی کی ہے کہ چین نے اپنے کرپٹ وزیروں کو پھانسی دے دی ہے۔ ہمیں ڈر ہے وہ کہیں غصے میں اپنے وزیروں کو پھانسی نہ دے دیں۔ شکر ہے انہوں نے ایسا نہیں کیا لیکن جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ پھانسی سے بھی زیادہ انتہائی قدم ہے۔ اُف اتنی سخت سزا، اتنا سخت ایکشن! ہم تو کانپ کر رہ گئے۔ جہانگیر ترین فارغ، عبدالرزاق دائود کی دو عہدوں سے چھٹی، وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ مستعفی، تین سرکاری افسر ہٹادیے گئے۔ مشیر اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب بھی فارغ۔ خسرو بختیار کو نیشنل فوڈ سیکورٹی کی وزارت سے فارغ کرکے اقتصادی امور کا وزیر بناکر نشان عبرت بنادیا گیا، ہمیں ڈر ہے کبھی پرویز خٹک پشاور بی آر ٹی کے معاملے میں پکڑے گئے تو وزیراعظم انہیں وزیر خارجہ نہ بنادیں۔
وزارتوں کی تبدیلی یقینا کڑی سزا ہوگی لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کھوتوں کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ باندھ دیا جائے تو کیا وہ گھوڑے بن جاتے ہیں۔ دو ہیرونچی ملے۔ ایک دوسرے سے بولے ’’تمہارے کپڑوں میں سے بدبو آرہی ہے‘‘۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کپڑے تبدیل کر لیے۔ اس لطیفے کا وزارتوں کی تبدیلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک صاحب کی دھوتی سر بازار گر گئی۔ اس نے زمین سے اٹھا کر پگڑی بناکر سرپر رکھ لی۔ اس لطیفے کا وزیراعظم کے سخت ایکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک بچے کا رزلٹ آیا۔ بچہ امتحان میں فیل تھا باپ نے ڈانٹا تو بچے نے کہا ابو آپ کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ کا بیٹا آپ سے کچھ چھپاتا نہیں ہے۔ اس لطیفے کا وزیراعظم کا رپورٹ شائع کرنے کا کریڈٹ لینے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک نابینا سڑک پر سفید اسٹک ٹیکے چلا جارہا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی نہ جانے کیوں بلند آواز سے کہہ رہا تھا ’’مجھے کچھ نظر نہیں آرہا‘‘۔ اس واقعے کا چیئرمین نیب سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے سنا ہے وہ عنقریب آٹا چینی چوروں کے خلاف ایکشن لینے والے ہیں۔ دیکھیں کس ن لیگی کو پکڑتے ہیں۔ قتیل شفائی نے کہا تھا
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
کیا خان صاحب اپنے قریب ترین ساتھیوں کی کرپشن پر شرمندہ ہوں گے کہ انسان اپنے دوستوں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ کل ہم نے شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں شیخ رشید کو وزیراعظم کا دفاع کرتے ہوئے سنا۔ وزیراعظم نے گھٹیا نسل کی ایک ایسی ٹیم تیار کر رکھی ہے جو آٹا چینی بحران کا بھی کامیابی سے دفاع کرکے دکھا دے گی۔ ہمارے ایک دوست بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ کچھ بھی ہوجائے ان کا وزیراعظم عمران خان سے حسن ظن کم نہیںہوتا۔ کل ہی ہم نے سنا۔ دعا کررہے تھے ’’میرے مولا تونے ہمیں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی صورت میں جو ایماندار سیاست دان عطا کیے ہیں ان کی دائیں سے بائیں سے، نیچے سے اوپر سے حفاظت فرما۔ میرے مولا کیا ہوا جو وزیراعظم کے خاص دوست قوم کو چونا لگا رہے ہیں وزیراعظم ان کی چوری کی رپورٹ بھی تو شائع کروا رہا ہے‘‘۔
جہاں تک رپورٹ شائع ہونے کا تعلق ہے اس میں بھی عجیب مخمصہ ہے وزیراعظم فرمارہے ہیں رپورٹ حکومت نے پبلش کی ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کا کہنا ہے رپورٹ لیک ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی کو موردالزام ٹھیرا رہے ہیں کہ انہوں نے میری ضد میں لیک کی ہے۔ حامد میر فرما رہے ہیں کہ عمران نیازی کو وارننگ دی گئی تھی کہ یہ رپورٹ پبلک کردو نہیں تو ہم خود پبلک کردیں گے اور پھر اس کے بعد ہم کچھ نہیں سنیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کہہ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کو ٹاسک فورس کی چیئرمینی سے ہٹادیا گیا۔ جہانگیر ترین کہہ رہے ہیں میں چیئرمین تھا ہی نہیں۔
صاف چلی شفاف چلی
تحریک انصاف چلی
اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا سے نبرد آزما ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کنسٹرکشن کے شعبے کے لیے ایک عظیم ریلیف پیکیج کا اعلان کردیا۔ سب حیران، لیکن اب وزیراعظم کی دانش مندی پر عش عش کررہے ہیں۔ جس جس نے ڈالر 114سے بڑھا کر 164پر پہنچاکر پیسے بنائے وہ کنسٹرکشن کے شعبے میں لگادے۔ جہانگیر ترین، خسرو بختیار، مونس الٰہی اور دوسرے لوگوں نے آٹا چینی بحران میں جو اربوں روپے کی کرپشن کی ہے وہ کنسٹرکشن کے شعبے میں لگادیں۔ کوئی مائی کا لال ان سے لگائی گئی رقم کے ذرائع کے بارے میں بھی نہ پوچھ سکے گا۔ ملک کا پیسہ ملک کے اندر ہی رہے گا۔ ویسے نہ جانے یہ کس نے کہا تھا ایسا اسکنڈل یورپ میں سامنے آتا تو سب سے پہلے وزیراعظم استعفا دیتا۔
شنید ہے وزیراعظم عمران خان آٹا چینی بحران سے سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے اک درویش کو اپنی پریشانی بتائی۔ درویش نے وزیراعظم کی بات سنی اور کہا ’’جائو نمک لے کر آئو‘‘۔ وزیراعظم حیران ہوئے کہ کرپشن کا نمک سے کیا تعلق ہے۔ انہوں نے ایک ملازم کو اشارہ کیا وہ نمک لے آیا۔ درویش نے مٹھی بھر نمک لے کر پانی کے گلاس میں حل کیا اور وزیراعظم سے کہا ’’پیو‘‘۔ وزیراعظم نے ایک گھونٹ ہی پیا تھا کہ تھو تھو کرکرنے لگے۔ درویش نے پوچھا ’’پانی کا ذائقہ کیسا لگا‘‘۔ وزیراعظم نے کہا ’’ناقابل برداشت، انتہائی کڑوا‘‘۔ درویش نے کہا ’’اگر ہم اس مٹھی بھر نمک کو دریا کے پانی میں ڈال دیں تو کیا وہ بھی اتنا ہی ناگوار اور کڑوا ہوجائے گا‘‘۔ وزیراعظم نے جواب دیا ’’نہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ پانی میٹھا ہی رہے گا‘‘۔ درویش نے وزیراعظم سے کہا ’’بھائی اس قوم نے آدھا ملک ٹوٹتے دیکھا اور ذمے داران کو کچھ نہیں کہا، مقبوضہ کشمیر مودی نے ہتھیا لیا خاموش رہی۔ رائو انوار پر چارسو سے زائد انسانوں کے قتل کا الزام ہے کسی کو یاد بھی نہیں۔ کھربوں روپے کی کرپشن کے سمندر کے سمندر دیکھے برداشت کرگئی۔ اس دوتین ارب کی کرپشن سے کیا فرق پڑے گا۔ قوم کے دریا کے پانی نے تلخ نہیں ہونا ہے۔ کل ہی جلسہ کرکے دیکھ لو لوگ دھمال ڈال رہے ہوں گے ’’جب آئے گا عمران۔۔ سب کی جان۔۔ بنے گا نیا پاکستان‘‘۔
برا وقت آتے دیر نہیں لگتی۔ آج تحریک انصاف کے وہ لوگ بھی جہانگیرترین کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جو اپنی چھت سے ہر گزرتے جہاز کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ’’شہزادہ ایک اور ایم پی اے توڑلایا‘‘۔ ویسے جب سے ہم نے پڑھا ہے آٹا چینی اسکینڈل کی رپورٹ واجد ضیا نے بنائی ہے ہمیں لگتا ہے پارٹی شروع ہوگئی ہے۔ نواز شریف کے خلاف بھی رپورٹ واجد ضیا ہی نے بنائی تھی جے آئی ٹی کے سربراہ وہی تھے۔ نواز شریف پر یاد آیا سنا ہے وہ آج کل آرام سے ٹی وی پرکتوں کی لڑائی دیکھ رہے ہیں۔