مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادکاری

416

 پاکستان نے مارچ کی 20 تاریخ کو مقبوضہ کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلائو پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں مصدقہ معلومات فراہم کرے تاکہ عالمی اداروں کے تعاون سے کشمیریوں کو وائرس سے بچائو کے لیے ضروری ادویات و سامان و غذائی اجناس فراہم کی جاسکیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ فاروقی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جبری لاک ڈائون اور ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ صحیح صورت حال سامنے آسکے۔ پاکستان کے اس مطالبے کے بعد اس کا فالو اپ بھی ضروری تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت سے مطالبے کے بعد پاکستان نے خاموشی اختیار کرلی اور عالمی ادارہ صحت اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ نتیجہ معلوم، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں کے بارے میں بالکل اندھیرے میں ہے، البتہ اخباری اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں ادویات و خوراک کی شدید قلت پائی جاتی ہے اور لوگ وائرس سے زیادہ بھوک سے مرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے، معیشت بیٹھ گئی ہے، نو ماہ کے طویل لاک ڈائون نے انہیں پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے اور عالمی برادری کورونا وائرس کی افتاد کے سبب انہیں بالکل فراموش کر بیٹھی ہے۔ خیر عالمی برادری سے کیا گلہ خود پاکستان کا بھی یہی حال ہے، وہ زبانی ہمدردی کے سوا کشمیری عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکا۔
بھارت عالمی برادری اور پاکستان کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کے تمام ممکنہ اقدامات کررہا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے کشمیری مسلمانوں کی مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور لسانی شناخت تبدیل کرکے ان کے قومی وجود کو بالکل ختم کرنا چاہتا ہے۔ چناںچہ طے شدہ منصوبے کے تحت وہ بتدریج قدم اُٹھا رہا ہے جس کے تحت وہ تمام بھارتی باشندے جو سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں گزشتہ دس سال سے مقبوضہ کشمیر میں مقیم ہیں کشمیر کے شہری تصور ہوں گے اور کشمیر میں جائداد اور زمین خرید سکیں گے، انہیں ووٹ دینے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔ اس قانون میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ غیر کشمیری مسلمانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی غیر کشمیری مسلمان مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ نئے ڈومیسائل قانون کا واحد مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کو آباد کرنا اور مسلم و غیر مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر مسلم آبادی کا خطہ ہے جہاں کے باشندے بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے وہ برصغیر کی تقسیم کے اصول کے تحت حق خود ارادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ انہیں تقسیم کے وقت ہی بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کرنے کا اختیار دے دیا جاتا لیکن اس وقت ایک سازش کے تحت ان کی قسمت کو معلق کردیا گیا اور بھارت نے فوجی طاقت کے بل پر اس خطے پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ جب بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو وہ اس تنازع کو ازخود اقوام متحدہ میں لے کر چلا گیا جہاں اس نے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے عالمی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ حالات سازگار ہوتے ہی کشمیری عوام کو آزادانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دے گا۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں رائے شماری کمشنر بھی مقرر کردیا۔ بھارت پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا پھر اپنے وعدے سے منحرف ہوگیا اور مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرنے لگا۔
یوں تو بھارت کی ساری حکومتیں کشمیری عوام کی آزادای سلب کرنے اور انہیں انسانی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش میں لگی رہی ہیں لیکن مودی سرکار ماضی کی تمام حکومتوں سے بازی لے گئی ہے۔ اس نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی ہے بلکہ کشمیری عوام کو گھروں میں محصور کرکے ان پر مسلسل جابرانہ قوانین مسلط کر رہی ہے وہ مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا وسیع تر منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے جس میں ہندوئوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کے علاوہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی طرز پر ہندو پنڈتوں کی الگ بستیوں کا قیام بھی شامل ہے۔ ان پنڈتوں کو ایک سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر سے اپنا گھر بار چھوڑنے اور بھارت میں کیمپوں کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ مقصد اس سازش کا یہ تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا جائے اور عالمی برادری کو باور کرایا جائے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد بھیج کر وہاں کے ہندو پنڈتوں کو نقل مکانی پر مجبور کررہا ہے، اس لیے اسے ایک دہشت گرد اسٹیٹ ڈیکلیئر کیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں عسکریت زوروں پر تھی اور مجاہدین قابض بھارتی افواج کوناکوں چنے چبوا رہے تھے لیکن مقامی ہندوئوں سے انہیں کوئی پُرخاش نہ تھی وہ چاہتے تھے کہ غیر مسلم آبادی اپنے گھروں میں ٹکی رہے، اس سلسلے میں انہیں باقاعدہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی، خود سید علی گیلانی نے پنڈتوں سے کہا تھا کہ وہ ان کی حفاظت کی ضمانت دینے کو تیار ہیں، وہ اپنا گھر بار چھوڑنے کی غلطی نہ کریں لیکن وہ گورنر جگ موہن کے فریب میں آکر یہ غلطی کر بیٹھے اور اس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ان کے لیے الگ بستیاں قائم کرنا چاہتا ہے جن میں پنڈتوں کے علاوہ غیر کشمیری ہندوئوں کو بھی بسایا جائے گا۔ حریت کانفرنس کی قیادت نے ان بستیوں کی بھی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت اس طرح کشمیری معاشرے کو تقسیم کرنا چاہتا ہے لیکن سوائے انتشار کے اسے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
جہاں تک نئے ڈومیسائل قانون کا تعلق ہے تو سید علی گیلانی نے کشمیری عوام سے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف ڈٹ جائیں اور ہندوئوں کو اپنی املاک اور زمینیں فروخت کرنے سے انکار کردیں اور ان کے ساتھ اچھوتوں کا سا سلوک کیا جائے۔ پاکستان نے بھی اس قانون پر شدید تنقید کی ہے اور اسے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ جب کہ او آئی سی نے بھی اس کالے قانون کو مسترد کردیا ہے اور اپنے اس مطالبے کو پھر دہرایا ہے کہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ پاکستان اور او آئی سی کا موقف قابل تعریف سہی لیکن بھارت پر اس کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ نہ تو پاکستان کوئی عملی قدم اُٹھانے کی ہمت رکھتا ہے نہ ہی او آئی سی کھوکھلی بیان بازی سے آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ حالاں کہ اس کے پاس بھارت کے خلاف کئی آپشن ہیں وہ بھارت کے ساتھ اپنے تمام اقتصادی منصوبے منسوخ کرسکتی ہے، وہ بھارت کو سفارتی تعلقات توڑنے کی وارننگ دے سکتی ہے، وہ بھارت کو خبردار کرسکتی ہے کہ اگر اس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے تمام جابرانہ قوانین منسوخ نہ کیے اور کشمیر کی آئینی حیثیت بحال نہ کی تو عرب ملکوں میں موجود تمام بھارتی باشندوں کو ملک بدر کردیا جائے گا، اگر او آئی سی بھارات کے خلاف کسی ایک آپشن پر بھی عمل کرے تو بھارت کا دماغ ٹھکانے آسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ او آئی سی ارکان میں کشمیریوں سے کوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی ان کی عدم دلچسپی کا یہ حال ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ المناک صورت حال پر او آئی سی کا کوئی خصوصی اجلاس بھی نہیں بلاسکے۔ ظاہر ہے ان حالات میں کشمیریوں کو اپنی جنگ خود لڑنی ہے اور وہ اللہ کے سہارے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔