کورونا کا دوسرا مرحلہ۔ امداد اور قرضے

828

پاکستان سمیت دُنیا بھر کے ممالک کورونا وائرس کی وبا کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں خوف پھیلایا گیا، وبا کا شکار ہونے والوں کے غلط اعداد و شمار جاری کیے گئے۔ پھر ہر مریض کو کورونا کا مریض قرار دینے کا کام شروع ہوا اور نمونیہ اور فلو کے مرض سے مرنے والوں اور گردے فیل ہونے والوں کو بھی کورونا کا مریض قرار دے کر خوف کی فضا کو مستحکم کیا گیا۔ اب تمام ممالک عالمی ساہو کاروں سے مزید قرضے لینے کے مرحلے میں آگئے ہیں۔ کہیں سے کوئی ملک امداد دینے کی پوزیشن میں تو ہے نہیں۔ عالمی اداروں نے پہلے وبا کے بارے میں ہولناک رپورٹس دیں پھر جو جو ڈیوٹی جس جس ادارے کو دی جاتی ہے وہ اسے پورا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ چنانچہ معاشی جائزے کے ذمے دار اور اداروں کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ دُنیا کو خوفناک معاشی تباہی کی تصویر دکھائو۔ کورونا کی وجہ سے حکومتوں نے بدحواسی میں جو اقدامات کیے ہیں ان کے نتائج معاشی تباہی کی صورت ہی میں آنے تھے چنانچہ ایک ادارے نے جائزہ جاری کیا ہے کہ کورونا وائرس آنے والے دو برسوں میں عالمی معیشت کے 5 ہزار ارب ڈالر کھا جائے گا۔ اس معاشی تباہی سے نکلنے کے لیے دو سال لگیں گے۔ اب سب ملکوں نے یقین کرلیا ہے کہ معاشی تباہی سے نکلنے کے لیے مزید قرضے لیے جائیں۔ ایران نے پانچ ارب ڈالر قرضوں کے لیے درخواست کردی۔ پاکستان کے مذاکرات جاری ہیں۔ اس دوسرے مرحلے میں امداد یا قرض کے نام پر جو کچھ ملے گا وہ کسی ملک کے لیے کافی نہیں ہوگا بلکہ اسے عالمی ساہو کاروں کے چنگل میں مزید پھنسا دے گا۔ پھر تیسرا مرحلہ آئے گا وہ ہے عالمی ساہو کاروں کی شرائط جن میں آئی ڈی 2020ء یا ڈیجیٹل کرنسی وغیرہ شامل ہوں گے۔ چونکہ دُنیا کے تقریباً تمام ہی حکمران اس دجالی نظام کے غلام ہیں اس لیے بڑی آسانی سے تیسرے مرحلے میں بھی اس معاشی شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔ دُنیا بھر میں کیا ہوتا ہے اس میں وقت لگے گا۔ پاکستان میں کیا ہونا چاہیے اس حوالے سے بڑی اہم چیزیں ہیں جن کو نظر انداز کرکے سب کے سب امدادی رقوم، امدادی پیکیجز اور رقوم کی تقسیم کے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ سرکاری اعلان اور عمل میں فرق بھی بہت ہوتا ہے اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجا طور پر توجہ دلائی ہے کہ حکومت احساس پروگرام پر ضرور عملدرآمد کرے لیکن عوام کو ادویات اور خوراک کی اشیا پر سبسڈی دی جائے۔ حکومت آنے والے دنوں میں دو تین ہفتے کے اندر 144 ارب روپے تقسیم کرنے جا رہی ہے یہ تقسم اوپر سے چلتی ہوئی نیچے کس طرح اور کتنی پہنچے گی یہ سب جانتے ہیں۔ اگر امدادی رقوم کا ایک بڑا حصہ حکومت عوام کے بجلی، گیس اور دیگر بلز معاف کرنے پر بھی خرچ کر دے تو عوام کو بڑا ریلیف ملے گا۔ اسی طرح صنعتوں کو بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مزدوروں کو بیروزگار نہ کریں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں اہل خیر کو کام کرنے دیا جائے اور حکومتیں خود چندے لینے کے بجائے سنجیدہ اہل خیر کو کام کرنے دیں۔ اگر پاکستان میں الخدمت جیسی تنظیموں کے کام کی سرکاری سطح پر پذیرائی اور ہمت افزائی کی گئی تو نتائج بہتر ہوں گے۔ کورونا سے جو تباہی، بیماری اور اموات کی صورت میں ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ تباہی حکومتوں کے بدحواسی کے نتیجے میں معاشی طور پر ہوگی۔ ایک مسلسل عمل کے ذریعے ہی اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ حکومت سے تو بس یہ گزارش ہے کہ وہ خود رقوم کے حصول اور تقسیم کے عمل سے دور رہیں۔ اگر پاکستانی حکمران، چینی اور گندم مافیا صرف ایک سال کے لیے اپنی سرگرمیاں بند کر دیں تو پاکستان نہ صرف کورونا کے وار سے بچ سکتا ہے بلکہ معاشی طور پر جلد دوبارہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ افسوس ناک امر تو یہی ہے کہ اعداد و شمار بھی اسی لیے بڑھائے جا رہے ہیں کہ امداد یا قرضوں کی زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کی جائے۔ ہر شعبہ مال بٹورنے میں مصروف ہے۔ حکومت کی نظریں مہنگائی سے ہٹ چکی ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے نجی اسپتالوں کے مالکان اور ڈاکٹروں نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے لاک ڈائون میں توسیع اور زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کیا جس کا واضح مطلب ہے کہ مفت اور امداد کے طور پر ملنے والی ٹیسٹنگ کٹس نجی اسپتالوں کو مل گئی ہیں جو بھاری معاوضے پر ٹیسٹ کرکے پیسہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو تو کورونا سے زیادہ کرپشن کے وائرس سے نجات کی ضرورت ہے۔