اور فیصلہ بدل گیا

649

سندھ حکومت نے ہفتہ کے دن حکم جاری کیا تھا کہ کراچی کی گیارہ یونین کونسلیں مکمل طور پر سیل کر دی گئی ہیں۔ ان کونسلوں کے نام بھی نشر کر دیے گئے تھے جن سے مذکورہ علاقوں میں نہ صرف خوف و ہراس پھیل گیا بلکہ ہر شخص محصور ہو جانے کے خوف سے راشن جمع کرنے کی فکر میں مبتلا ہو گیا۔ لیکن رات گئے فیصلہ تبدیل کر دیا گیا اور نیا حکم یہ ہے کہ پوری یونین کونسلیں سیل نہیں ہوں گی تاہم جہاں جہاں کورونا کے کیس سامنے آئے ہیں وہ سیل کر دیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ اور اس میں ردوبدل حکومت سندھ کی بوکھلاہٹ کا مظہر ہے اور واضح ہے کہ کوئی جامع منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی حکمرانوں میں اتفاق رائے۔ فی الوقت تو فیصلہ تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اس پر پھر عمل ہوگا۔وزیر اعلیٰ سندھ کی باڈی لینگویج کئی دن سے بتارہی ہے کہ وہ اس لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور اس میں ہر صورت اضافہ ہی چاہتے ہیں ۔ صوبائی وزیر اینٹی کرپشن ، صنعت وتجارت و محکمہ کوآپریٹو سوسائیٹیز جام اکرام اللہ دھاریجو نے بھی یہی بیان دیا ہے کہ لاک ڈاؤن کو مزید سخت کیا جائے گا ۔یوں تو صوبائی حکومت نے پورے سندھ میں ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہوا ہے مگر اس کا سارا زور کراچی پر ہے ۔ سندھ کے دیہی علاقے عملی طور پر کھلے ہوئے ہیں اور گندم کی کٹائی زوروں پر ہے ۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، مراد علی شاہ اسے کیوں عضو معطل بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، سمجھ سے بالا تر ہے ۔ خوش قسمتی سے کراچی سمیت پورے سندھ میں کہیں بھی کورونا کی وہ صورتحال نہیں ہے ، جس کی منظر کشی کرکے خوفزدہ کیا جارہا ہے ۔ صوبائی حکومت کے جاری کردہ اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے اسپتالوں میں مجموعی طور پر 118 مریض داخل ہیں ۔ پچھلے روز کے مقابلے میں مریضوں کی تعداد میں 21 کا اضافہ ہوا ہے ۔ ابھی تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد نے بھی تشویش کے نشان کو نہیں چھوا ہے ۔ انتظامیہ کے مطابق پورے سندھ میں اب تک 21 افراد کورونا سے جاں بحق ہوئے ہیں مگر ان میں سے کئی افراد کے کورونا کے ٹیسٹ کے نتائج ان کی موت کے بعد موصول ہوئے جو منفی تھے ۔ اسی طرح مرنے والوں کی اکثریت سرطان ، گردوں کے مرض اور نمونیہ کی وجہ سے پہلے ہی قریب المرگ تھی مگر پھر بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر سید مراد علی شاہ معمول کی سرگرمیوں کو بتدریج بحال کرنے کے بجائے پابندیوں کو مزید سخت کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کراچی کی جن یونین کونسلوں میں کرفیو کی طرح کے سخت لاک ڈاؤن کا حکم دیا گیا تھا ، وہاں کی تنگ گلیوں اور چھوٹے گھروں کی بناء پر کوئی بھی مکینوں کو ان کے گھروں تک محدود نہیں رکھ سکتا ۔ یہ سارے لوگ گلیوں میں ہی ہجوم کی شکل میں گھومتے پھرتے نظر آئیں گے ۔ ابھی تک تو یہی علم نہیں ہے کہ کون سی گلیاں لاک ڈاؤن کی زد میں آئیں گی اور کون سی نہیں ، کیوں کہ ضلعی انتظامیہ نے 15 برس پرانے بلدیاتی نظام کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ۔ جن آبادیوں کے تا حکم ثانی لاک ڈاؤن کا حکم جاری کیا گیا تھا ، ان میں چالیس اور ساٹھ گز مربع گز کے کئی منزلہ مکانات ہیں جہاں پر نہ ہوا ہے اور نہ پانی ۔ جن علاقوں کے عوام سے بیس سیکنڈ تک صابن اور پانی سے ہاتھ دھونے کی اپیل کی جارہی ہے ، ان کے پاس صابن تو دور کی بات ہے ، پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے ۔ گھروں میں جگہ نہ ہونے کے باعث یہاں کی آبادی گلیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہے ۔ اب ان آبادیوں میں بسنے والے لاکھوں افراد کہاں سے کھائیں گے اور کہاں سے پیئیں گے ۔ کے الیکٹرک صوبائی حکومت کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی آبادیوں میں مسلسل لوڈ شیڈنگ جاری رکھے ہوئے ہے ، تو پھر یہ لوگ کیسے شدید گرمی میں تنگ و تاریک گھروں میں رہ سکیں گے ۔ کیا مراد علی شاہ نے کوئی ہوم ورک کیا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو کس طرح بھوک سے مرنے سے بچایا جاسکے گا ۔ صوبائی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پہلے ہی کراچی کے شہری موت کے منہ میں پہنچ گئے ہیں ۔ کسی اسپتال میں عام مریضوں کو کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ دل کے امراض میں مبتلا جن مریضوں کی انجیو پلاسٹی یا بائی پاس آپریشن ہونے تھے ، وہ بھی لاک ڈاؤن کھلنے کے انتظار میں ہیں ۔ اسپتالوں نے کینسر کے مریضوں کی کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی تک سے منع کردیا ہے ۔ اب کینسر کے ان مریضوں کی حالت علاج نہ ہونے کی وجہ سے مزید ابتر ہورہی ہے ۔ کورونا سے تو ڈیڑھ ماہ میں صرف 21 افراد موت کا شکار ہوئے ہیں مگر علاج کی سہولتیں معطل ہونے کی وجہ سے درجنوں افراد موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ اب ان گنجان آبادیوں کے لاک ڈاؤن کے سبب لوگ بھوک سے بھی مریں گے ۔سندھ حکومت کی کارکردگی کا تو یہ عالم ہے کہ سرکاری دستاویزات میں اربوں روپے کا راشن تقسیم کردیا گیا مگر ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جو کہہ سکے کہ اسے یہ راشن ملا ہے ۔ اسی طرح کورونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی سامان و ماسک خرید ابھی گیا اور امداد میں بھی آیا مگر ڈاکٹروں اور طبی عملے کے پاس وہی حفاظتی سامان ہے جو جماعت اسلامی نے عطیہ کیا ہے ۔ اب ان گنجان آبادیوں میں روز کون راشن پہنچائے گا ، بیمار لوگوں کو کون علاج کی سہولت فراہم کرے گا، ان کے گھروں کے کرائے اور بجلی و گیس کے بل کی کون ادائیگی کرے گا۔ بہتر ہوگا کہ مراد علی شاہ عوام دشمن رویہ ترک کریں ۔ اگر ان کے عوام دشمن اقدامات یونہی جاری رہے تو صوبے میں فسادات پھوٹ سکتے ہیں اور لوگ سارے حفاظتی انتظامات کو توڑتے ہوئے باہر نکل آئیں گے ۔ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ بھوک سے مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی کورونا سے بیمار ہوجائے ۔ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم حالات کو سمجھے اور کورونا کے نام پر عوام کو خوفزدہ کرنے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق اقدامات کرے۔ اگر ایسے ہی پوری آبادیوں کو محصور کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو نہ یہ ان کی حکومت کے لیے بہتر ہوگا اور نہ ہی ملک کے استحکام کے لیے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس بھی ایک حد تک ہی عوام کو کنٹرول کرسکتے ہیں ۔ بے قابو عوام کو تو امریکی فوج ویتنام ، کمبوڈیا ، عراق اور افغانستان میں کنٹرول نہیں کرسکی ۔ یہ احترام ہی ہوتا ہے جو قانون کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے ۔ اگر عوام میں احترام اٹھ گیا تو پھر سب کچھ بہہ جائے گا ۔