ایک طرف پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی کورونا وبا کی لپیٹ میں ہے جس سے اب تک پانچ ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 80 ہے جو ایک خوش آئند بات ہے یعنی کورونا سے متاثر ہونے والوں کے مقابلے میں شرح اموات دنیا کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی گندے ماحول، آلودہ پانی، ملاوٹ شدہ خوراک اور غیر معیاری دوائوں کے باوجود اس بیماری میں شدید مزاحمت دکھا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں آٹا چینی بحران کی خبروں کا چرچہ ہے جس کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسی کوئی رپورٹ عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔ ویسے تو اس پر بھی شک ہے کہ یہ رپورٹ لائی گئی ہے یا لیک ہو گئی ہے اور حکومت نے مجبوراً اسے شائع کیا ہے اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں وہی نام آ رہے ہیں جن سے عوام پہلے سے با خبر ہیں یعنی جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور مونس الٰہی۔ اس طاقتور مافیا نے پہلے حکومت پر اثر انداز ہو کر شوگر برآمد کرنے پر 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی اور اس کے بعد ملک میں شوگر کی قلت ہونے پر قیمتوں میں اضافہ کیا اور اس طرح فی کلو قیمت ساٹھ پینسٹھ فی کلو سے بڑھ کر 80 روپے فی کلو ہو گئی اور اس طرح راتوں رات کروڑوں روپے کمائے اور عوام مہنگے داموں شوگر خریدنے پر مجبور ہوئے۔ شوگر مافیا کے با اثر اور طاقتور ہونے کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کے سبسڈی دینے پر انکار کے باوجود اور پنجاب کے کئی سیکرٹریوں کی مخالفت کے باوجود پنجاب کابینہ کی میٹنگ میں ایجنڈے سے ہٹ کر شوگر کی برآمد پر سبسڈی منظور کرائی ہے جس سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ اس بحران کی ذمے دار شوگر مافیا کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت ہے کہ اس سارے معاملے پر وزیراعظم عمران خان مسلسل خاموش رہے اور اب اس رپورٹ کے عوام کے سامنے آنے پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔
شوگر کا بحران کوئی نیا نہیں اس سے پہلے بھی پاکستان کے عوام مہنگی چینی اور چینی کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کرتے رہے ہیں ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ جب چینی کی مسلسل قلت کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کے دودھ کو میٹھا کرنے کے لیے چینی کا متبادل ڈھونڈا کرتے تھے اور مافیا میں تمام طاقتور سیاستدان، شریف خاندان، زرداری خاندان، گجرات کے چودھری برادران، جنوبی پنجاب کے خسرو بختیار اور جہانگیر ترین شامل ہیں اور وزارت خوراک، وزارت زراعت، وزارت تجارت اور وزارت خزانہ جیسے اہم عہدوں پر انہی گروپوں کے لوگ فائز رہے ہیں۔ ایک دن گنے کے کاشتکاروں سے کم قیمت پر گنا ادھار خریدا جاتا ہے۔ کاشتکار اپنا گنا سڑکوں اور گاڑیوں میں لاد کر شوگر ملز تک پہنچتے ہیں انہیں وہاں کئی کئی دن انتظار کرایا جاتا ہے سڑکوں اور گاڑیوں کا کرایہ بڑھتا جاتا ہے اور دھوپ میں گنا خشک ہو کر اس کا وزن کم ہو جاتا ہے حکومت کے گنے کے اعلان شدہ ریٹ سے ہٹ کر گنا خریدا جاتا ہے جس کی ادائیگی کئی ماہ بعد ہوتی ہے اس کے بعد حکومت سے ساز باز کر کے رعایتیں اور اعانتیں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شوگر ملز مالکان سخت مشکل میں ہیں کاروبار نقصان میں جا رہا ہے۔ گنے کے کاشتکاروں کی ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں۔ ملک میں شوگر کا اسٹاک مارکیٹ میں طلب سے زیادہ ہے۔ مہنگا گنا خرید کر سستی چینی بیچ رہے ہیں اور اس طرح سبسڈی حاصل کی جاتی ہے اور وہی کھیل کھیلا جاتا ہے جو اس مرتبہ ہوا۔
اب حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ فرانزک رپورٹ کے 24 اپریل تک آنے کے بعد حکومت اس بحران میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ فرانزک رپورٹ کیا ہے یہ اصل میں شوگر ملز کی اکاوئنٹس اور آڈٹ رپورٹ کو سامنے رکھ کر بنائی جائے گی لیکن اس کی تیاری میں کئی بڑے شوگر ملز مالکان کی ملوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے یعنی اپنے منظورِ نظر لوگوں کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اندازہ یہ ہے کہ اگلے ہفتے کورونا کی وبا پاکستان میں شدت اختیار کرے گی اور اس کے شور میں آٹا اور چینی کا بحران دب جائے گا اور شوگر مافیا ایک مرتبہ پھر بچ کر نکل جائے گا۔