اور کتنے ثبوت درکار ہیں؟

212

برطانوی حکومت نے غدار الطاف حسین کی سر پرستی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے الطاف کے خلاف، نئے ریفرنس میں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے، واضح ثبوت ملنے پر ہی کارروائی کریں گے۔ یعنی نہ تو برطانوی حکومت ثبوتوں کو واضح اور ٹھوس تسلیم کرے گی اور نہ کارروائی ہوگی۔ اسی کو کہتے ہیں ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘۔ کیا برطانوی حکمرانوں کے علم میں نہیں کہ 22 اگست کو کراچی میں اپنے کارندوں سے خطاب میں الطاف حسین نے کیا کہا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا۔ برطانیہ ہی نہیں، ہر ملک کے سفارتخانے فوری طور پر ایک ایک پل کی خبریں اپنے ممالک کو پہنچاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ الطاف کی ہرزہ سرائی کا ترجمہ کرکے برطانیہ اور دوسرے ممالک کے سفارتخانوں نے اپنے ملکوں کو نہیں بھیجا ہوگا۔ الطاف نے پاکستان کے خلاف جو نعرے لگوائے کیا ان کا ترجمہ 9 دن گزرنے پر بھی لندن تک نہیں پہنچا ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ الطاف حسین پاکستانی شہری نہیں، برطانوی شہری ہے چناں چہ ایک غیر ملکی پاکستان کے خلاف کچھ کہے تو اس پر غداری کا اطلاق نہیں ہوسکتا، جیسے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کا غدار نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن الطاف کے اکسانے پر جو توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی ہوئی وہ تو صریحا جرم ہے جس کا ارتکاب ایک برطانوی شہری نے کیا ہے۔ اور اس کے لیے برطانوی حکومت جوابدہ ہے۔ الطاف نے پہلی بار یہ کام نہیں کیا بلکہ لندن میں بیٹھ کر کراچی اور حیدرآباد میں پر تشدد ہڑتالیں کروا چکا ہے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ 12 مئی 2007ء کے قتل عام کا ذمے دار صرف وسیم اختر اور اس وقت کی ایم کیو ایم مافیا ہی نہیں تھی بلکہ جو کچھ ہوا وہ الطاف حسین کی منظوری اور پرویز مشرف کی حوصلہ افزائی سے ہوا۔ اس میں ایم کیو ایم کی پوری رابطہ کمیٹی کے وہ ارکان شامل تھے جو اب دھل، دھلا کر سامنے آرہے ہیں۔ کیا ڈاکٹر فاروق ستار، خواجہ اظہار الحق، عامر خان بھی الطاف کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے نہیں تھے۔ الطاف حسین کی آشیرواد سے کراچی کا میئر بننے والے مصطفے کمال بھی ’’الطاف وژن‘‘ کے گن گاتے تھے۔ 22 اگست کو جب الطاف پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اس مملکت خدا داد کو ناسور اور دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دے کر مردہ باد کے نعرے لگوا رہا تھا تو فاروق ستار اور عامر خان کان دبائے بیٹھے تھے، مخالفت کی ہمت نہیں تھی تو اٹھ کر چلے ہی جاتے یا اپنے کارکنوں کو روکتے۔ لیکن خاموشی نیم رضا کے مصداق وہ اپنے قائد سے متفق ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ الطاف کے خطاب کی وڈیو دیکھیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ عامر خان الطاف حسین کو اکسا رہا تھا کہ بھائی، ہم پر یہ اور یہ ظلم ہو رہا ہے۔ اس پر نشے میں دھت الطاف حسین نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ اس جرم میں خاموش رہنے اور اکسانے والے برابر کے شریک ہیں۔ پریس کلب کراچی کے باہر جو خواتین الطاف حسین کو یقین دلا رہی تھیں کہ ’’بھائی کا ہو ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ اور الطاف کے کہنے پر ڈنڈے لے کر نکل کھڑی ہوئی تھیں، ان کی گرفتاری فاروق ستار کو نا گوار گزر رہی ہے اور بار بار ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان خواتین کو وڈیو فوٹیج کے ذریعے پہچانا گیا ہے۔ لیکن فاروق ستار بھی تو چند دن پہلے تک بھائی کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے رہے ہیں۔ فاروق ستار کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ زمینوں اور پارکوں پر قبضے کرکے متحدہ کے جو اڈے قائم کیے گئے تھے، انہیں مسمار نہ کیا جائے۔ ان قبضوں اور چائنا کٹنگ کے دھندوں میں پوری رابطہ کمیٹی شامل ہے۔ فاروق ستار کی چشم پوشی بے گناہی کا جواز نہیں۔ آصف حسنین اب کمال پارٹی میں چلے گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں۔ لانڈھی کے عوام جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کتنے صاف ہیں اور ان کے پیٹرول پمپ کس زمین پر بنائے گئے۔
جہاں تک الطاف حسین کا تعلق ہے تو برطانوی حکومت اس کی پرورش کر رہی ہے ورنہ ثبوتوں کی تو کوئی کمی نہیں۔ الطاف کے قبضے سے لاکھوں پاؤنڈ برآمد ہوئے تھے۔ اس پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ قائم ہوا لیکن ڈھیل دی جارہی ہے۔ اب تو ایم آئی۔6 کے ساتھ سی آئی اے اور امریکا کی سر پرستی بھی ثابت ہوگئی ہے۔ امریکی سفارت کاروں کا الطاف کے گھر پر آنا جانا لگا ہوا ہے۔ جمعرات ہی کی صبح غدار اعظم کے چیلے واسع جلیل اور مصطفے عزیز آبادی امریکی سفارت خانے میں دیکھے گئے جہاں سے کھانا کھا کر نکلے اور پھر الطاف حسین کی اطاعت کی تجدید بذریعہ ٹوئیٹ کی کہ ایم کیو ایم کا قائد الطاف ہے اور فاروق ستار کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب پاکستان کے سب سے بڑے غدار الطاف کی پشت پناہی برطانیہ، امریکا اور بھارت کر رہے ہیں تو اس کے خلاف ثبوت خواہ کتنے ہی ٹھوس ہوں، مائع قرار دیے جائیں گے۔ برطانیہ کو اس کی فکر نہیں کہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے اس کی سر زمین استعمال ہو رہی ہے۔ امریکا نے تو اسی بہانے افغانستان پر چڑھائی کردی تھی کہ اسامہ بن لادن نے اس کی سر زمین استعمال کی ہے اور تمام صلیبی طاقتیں صرف ایک شخص کے خلاف صف آرا ہوگئی تھیں حالانکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں تھا کہ نائن الیون کے حادثے میں کوئی افغان ملوث ہے۔ الطاف کے خلاف ہر ثبوت کو برطانیہ نا کافی قرار دیتا رہے گا۔ پاکستان سے مجرموں کے تبادلے کا سمجھوتا نہیں ہے لیکن برطانیہ پاکستان میں شر پھیلانے والے اپنے شہریوں کا منہ تو بند کرے۔