لاڑکانہ میں 90 ارب ڈوب گئے

180

عدالت عالیہ سندھ کے چیف جسٹس نے لاڑکانہ کے ترقیاتی فنڈز میں مبینہ خورد برد کے حوالے سے بڑا سخت تبصرہ کیا ہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ تو پیپلز پارٹی کا اپنا گھر ہے، ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔ اب یہ واضح نہیں کہ جناب چیف جسٹس نے ڈائن کس کو قرار دیا ہے، کیا پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو یا کسی ایک شخصیت کو۔ وہ لاڑکانہ کے لیے 90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز میں بد عنوانی کے مقدمے کی سماعت کر رہے تھے جس میں آصف زرداری کی بہن اور پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری کی پھوپھی فریال تالپور کا نام بھی آرہا ہے۔ عدالت عالیہ ایک درخواست گزار بشیر عباسی کی درخواست کی سماعت کر رہی ہے جس میں درخواست گزار نے موقف پیش کیا ہے کہ 2008ء سے اب تک لاڑکانہ کی ترقی کے لیے سندھ حکومت نے 90 ارب روپے مختص کیے لیکن لاڑکانہ اب بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق فریال تالپور کی ملی بھگت سے فنڈز کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو چکا ہے۔ سماعت کے دوران میں چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سندھ حکومت نے لاڑکانہ پر کتنا پیسہ لگایا، اس کا حساب دیں۔ لیکن سرکار کے وکیل کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ درخواست گزار حکومت کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ وہ جواب ہے جو بد عنوانی کے کسی بھی معاملے کی جانچ کرنے کے مطالبے پر دیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور نے جو شہرت کمائی ہے اس کے پیش نظر انہیں کوئی اور بد نام کرنے کی کوشش نہیں کرسکتا۔ سندھ پر 8 سال کی حکومت کے دوران میں جو جو بدعنوانیاں ہوئی ہیں اور لوٹ مار کی گئی ہے، اس کے حقائق تو اس وقت ہی منظر عام پر آسکتے ہیں جب صوبے سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو جائے۔ فی الوقت اس کے امکانات نہیں۔ اب تو 8 سال تک حکمرانی کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ پر بھی زد پڑ رہی ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے موقف پر جناب چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار کو فنڈز کا حساب تو دینا ہی ہوگا۔ 8 سال میں تو پورے سندھ میں 90 ارب روپے نہیں لگے، صرف لاڑکانہ میں اتنی بڑی رقم کیسے خرچ ہوگئی۔ چیف جسٹس نے اپنا تجربہ اور مشاہدہ پیش کیا کہ میرا گزشتہ دنوں لاڑکانہ جانا ہوا، موئن جو دڑو سے لاڑکانہ تک 45 منٹ کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ محترم چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے 8 سال کے ترقیاتی فنڈ کے استعمال کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ کرپشن کے بحر سے کیا نکال کر لاتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کی یہ صورت حال ہے تو سندھ کے دیگر شہروں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی جب پہلی بار مرکز اور سندھ میں برسر اقتدار آئی تھی تو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ لاڑکانہ کو پیرس بنا دیا جائے گا۔ شاید پیرس ایسا ہی ہوتا ہو یا پھر سندھ حکومت کی کوشش یہ ہو کہ لاڑکانہ کو بھی موئن جو دڑو سے ملا کر اسے بھی تاریخی شہرت عطا کردی جائے۔ صرف لاڑکانہ ہی نہیں، سندھ حکومت سے تمام ترقیاتی فنڈز کا حساب لیا جانا چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سندھ حکومت بھٹو اور بے نظیر کے مزارات کی تزئین و آرائش پر دل کھول کر خرچ کرتی ہے اور جو برسیاں منائی جاتی ہیں ان میں بھی سرکاری خزانہ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن سندھ حکومت نے اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تقریبات اور اخراجات سرکاری خزانے سے نہیں کیے جاتے۔ پھر کروڑوں روپے کے اخراجات کس سے وصول کیے جاتے ہیں؟ اگر لاڑکانہ کے 90 ارب روپے کا حساب نہیں ملا تو سمجھ لیجیے کہ اس فنڈ کا بڑا حصہ پیپلز پارٹی کے مرحوم رہنماؤں کے مزاروں پر چڑھا دیا گیا۔ ایک شہر پر اگر 90 ارب روپے خرچ کردیے جائیں تو اس شہر کے گلی کوچے تک چمک اٹھنے چاہییں، سڑکیں پیرس کا منہ چڑاتی نظر آئیں اور شہر ایک مثالی شہر بن جائے۔ ایسا نہیں ہوا تو ظاہر ہے کہ ترقیاتی فنڈز کسی کی ذاتی ترقی میں صرف ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری اس طرف بھی توجہ فرمائیں۔ دوسروں پر بد عنوانی اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات لگانے والے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک لیں تو اچھا ہو۔