ہوش کے ناخن

167

تاریخ خود کو دہراتی ہے سنا ضرور تھا لیکن حقیت کو ناقابل تردید شکل میں اپنے سامنے ڈھلتے دیکھنا مضطرب او ر قدرے خوف زدہ بھی کررہا تھا، درپیش حالات نے کتاب زیست کے اوراق کچھ یوں مخالف سمت میں پلٹائے کہ ذہن کے پردے پر شناخت سے عاری خدوخال محو تماشا ہونے لگے، وہی سوال وہی جواب، مگر استعارے نئے اورکنایے جدا، وقت بھی تو اگلے عہد میں ڈھل چکا ہے، بنیادی سوال جانا پہچانا اور رویوں کی سرد مہری و سفاکی دیکھی بھالی کیوں ہے؟ آج تو قومی زبان اُردو ہونے نہ ہونے کا کوئی جھگڑا یا قضیہ در پیش نہیں، نہ ہی آ بادی کے کسی مخصوص طبقے کو اظہار و اختیار کی آزادی کا مطالبہ حقائق پر مبنی تسلیم کیا جاسکتا ہے، چوں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے قائم ہونے والی ہر حکومت میں حصہ بقدرے جثہ سے کچھ زیادہ ہی لیا جاتا رہا ہے، حزب اختلاف میں رہتے ہوئے بھی اقتدار کے مزے لوٹے گئے ہیں، من پسند وزارتوں پر براجمان ہو کر کبھی مصالحت کے نام پر اور کبھی دیگر حیلے بہانوں سے طاقت اور اقتدار سے ناتا بنائے رکھنے کا ریکارڑ پوری قوم کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کراچی خود سندھیوں کے لیے نو گو ایریا رہ چکا ہے، مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز بوری میں بند کرنے کی روایت عام تھی۔ابھی چند روز پہلے تک وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر کو منظم جرائم پیشہ اور دہشت گرد گرہوں نے بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا، روشنیوں کے شہر کراچی کے مینڈیٹ کے دعوے داراپنے ہی شہر کے باسیوں کو خوف، دہشت اور زور زبردستی کے ہر ممکنہ ہتھکنڈے سے سہمائے ہوئے تھے۔ سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے نمائندوں کو عوامی حمایت نے ہی اس مقام تک پہنچایا تھا پھر کیوں نااہل بلکہ مفاد پرست سیاسی ٹولے کے جرائم پر ان کے ووٹ بینک میں ناگواری کی کوئی لہر نہیں دکھائی دیتی تھی۔
ایسا تو نہیں کہ پورے ملک خاص طور پر اہل کراچی کی یہ خاموشی قوم کی اجتماعی پژمردگی سے تعبیر کی جاسکتی ہے؟ کیوں عام پاکستانی درست یا غلط سے متعلق اپنے ردعمل کے برملا اظہار کو آج بھی ضروری نہیں سمجھتا، اہل کراچی جو یقیناًملک کے دیگر تمام پاکستانیوں کی طرح وطن عزیز سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں گزشتہ ۳۰ برسوں سے خود پر ہونے والے ظلم و ستم پر ڈرے سہمے بیٹھے ہیں،دو کروڑ سے زائد آبادی کا یہ شہر مٹھی بھر ٹارگٹ کلرز اور بھتا خوروں کے ہاتھوں ہرغمال بنا رہا، آخر عام آدمی بد امنی، لاقانونیت اور بد انتظامی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے سے کیوں گریزاں ہے، کہیں من حیث القوم ہمارے اجتماعی ضمیر کوبزدلی اور تعصب کا دیمک تو نہیں لگ چکا؟نا انصافی، عدم مساوات اور ظلم و زیادتی کے خلاف ردعمل کو ظاہر کرنے کا حوصلہ آخر ہمارے اندر کب بیدار ہوگا، کوئی بھائی، خان، سردار، وڈیرہ یا چودھری اس قوم کی نمائندگی کیوں کرنے لگے جب کہ ان کے حقوق درحقیقت انہی بڑوں نے غصب کر رکھے ہیں۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کے حقوق سلب کرنے میں ملک کی اشرافیہ کے ساتھ خود عام آدمی بھی پیچھے نہیں، بنیادی حقوق کا نعرہ بلند کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ بجا طور پر نچلے اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے ووٹ بینک کے بل بوتے پر اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجتی رہی ہے مگر گزشتہ ۳۰ سال میں اپنے انتخابی منشور کے کون سے مقاصد حاصل کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ قومیت کے حقوق کا ماتم کرنے والے شیخ مجیب کے بنگلا دیش نے مغربی پاکستان کی نام نہاد غلامی سے نجات پانے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جو خواب بنگالی عوام کو دکھائے ان کی شرمناک تعبیر آج بھارتی آقاؤں کے بوٹ پالش کرتی شیخ حسینہ واجد سرکار تصویر کا دوسرا مگرتلخ اور شرمناک رخ دکھا رہی ہے جب کی وطن سے محبت کرنے والوں کے تختہ دار پر جھولتے بے جان جسم آج بھی سرفروشی اور جوان مردی کے نئے عنوان رقم کررہے ہیں۔
ریاست کے دیگر تمام اداروں سے بڑھ کر سیاست اور اہل سیاست کے ذمے قومی سلامتی اور اس سے جڑے تقاضوں کو دانش مندی اور خلوص نیت
سے پورا کرنا ہوا کرتے ہیں، موجودہ سیاسی قیادت کے وطن عزیز کودر پیش چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت کے باوجو د فیصلہ سازی میں ان کی دور اندیشی اور سنجیدگی پر سولیہ نشان ہے۔پاکستان کراچی سے فاٹا اور کشمیر سے بلوچستان تک بین الاقوامی و علاقائی سازشوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس سارے تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں جس تساہل،لاتعلقی اور لا پروائی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں اس صورت حال میں لا محالہ کسی دوسرے ذمے دار ادارے یا اتھارٹی کو اس بھیانک خلا کو پرکرنا ہی ہوگا۔ بر وقت، موثر اور کاری ضرب لگاکر ہی پاکستان دشمنوں کے اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔سیاستی مصلحتوں، چوں کہ، چناں چہ، اگر مگر سے معاملات سنگین صورت اختیار کرتے چلے جائیں گے، مشرقی پاکستان میں دشمن اپنے مقاصد میں اگر کامیاب ہوسکا،حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دشمن کی کامیابی نہیں بلکہ ہماری مکمل نا کامی تھی۔ آج بھی سیاست دان سیاسی مہروں کو اپنے مقاصد کی کامیابی کے خاطر آگے پیچھے کرتے نظر آرہے ہیں، الطاف حسین نہ سہی فاروق ستار ہی سہی، ۲۲ اگست کے بعد اٹھنے والے طوفان کی شدت کو بتدریج کم کرنے کے لیے خود سیاسی کھلاڑی اپنے اپنے مقاصد کی غرض سے ماورائے عقل حیلے بہانے گھڑرہے ہیں، کوئی ضلعی چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے جھگڑے میں مگن ہے تو کوئی رینجرز کے اختیارات سے تجاوز کا ڈھول پیٹ کر صورت حال کو متنازع بنا رہا ہے، یہی وہ طوائف الملوکی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان اور اس سے منسلک مفادات کو نا قابل تلافی زک پہنچائی ہے اور اب بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکمران طبقہ مین میکھ نکال کر متحدہ قائد اور ایم کیو ایم سے متعلق واضح، دوٹوک اور منطقی موقف اختیار کرنے بجائے کٹ حجتی اور کج بحثی کے پردے میں چھپنا چاہ رہے ہیں، ایک سانحہ جو دن دھاڑے اور علی الاعلان رونما ہوا اس سے نمٹنے میں نئی نئی موشگافیاں نکالنے سے سارے سیاسی نظام پر سنگین سوالیہ نشان لگنے کا خدشہ ہے، بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی قیادت نے مشکلات اور آزمائش میں اپنے قول و فعل سے کبھی اپنی صلاحیت کا موزوں اظہار کرنے میں پہل ہی نہیں کی، کیا وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں عام بنگالی سے عام پاکستانی کا تعارف نہ ہوسکا جب کہ دونوں ایک ہی جیسے سماجی، معاشرتی ومعاشی مصائب کے شکار تھے، کیوں زمینی فاصلوں کو ذہنی فاصلوں میں ڈھلنے کا راستہ بر وقت موثر اور موزوں اقدامات سے نہیں روکا گیا۔ یقیناًسیاست او ر اہل سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے اور کردار بھی اس ناکامی کے حصے دار ہیں مگر دراصل یہی موقع تھا جب سیاست دانوں کو اپنی فہم و فراست اور عوامی طاقت سے قوم کو اس بھنور سے نکالنے کا بیڑا اٹھانا چاہیے تھا، تاریخ کے اس نازک اور فیصلہ کن موڑ پر ارباب سیاست کی خود غرضی اور عاقبت نااندیشی نے متحدہ پاکستان کے تابوت میں آ خری کیل ٹھوک کر قوم کو دل خراش المیے سے دوچار کردیا جس کی ہزیمت کا احساس آنے والی نسل کے سینوں میں درد بن کرزندہ رہے گا۔
زندہ وجاوید قومیں حادثات اور سانحات سے سبق سیکھ کر اصلاح احوال کے نئے قرینے وضع کیا کرتی ہیں، خدارا وقتی اور فروعی مقاصد کے دلدل سے نکل کر قومی وقار اور وطن عزیز کی سلامتی سے متعلق دورس اور جرات مندانہ فیصلے کرنے میں دیر نہ کی جائے، کہیں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کردہ و نا کردہ سبھی گناہوں کا بوجھ موجودہ سیاست دانوں پر ڈال کر تاریخ آگے بڑھ گئی تو یہ بدنما داغ دھونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔