سارک تنظیم کا المیہ

378

سارک تنظیم کا المیہ
پچھلے ہفتے سارک تنظیم کے آٹھویں وزرا ئے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف نے جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون، یک جہتی اور تربت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ باہمی اعتماد و تعاون کے ساتھ اس خطے کے غیر استعمال شدہ وسائل کو برئے کار لا کر غربت اور مفلسی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ وزرائے خزانہ کے علاوہ اس اجلاس میں مرکزی بینکوں کے نمائندے اور تمام ممالک کے وفود کے دیگر ارکان بھی شامل تھے۔
جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی تنظیم (SAARC) بنگلا دیشی وزیراعظم ضیاء الرحمان کی تجویز پر 1985 میں قائم کی گئی تھی اور ڈھاکا میں اس کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں پاکستان سے ضیاء الحق نے شرکت کی تھی۔ علاقائی تعاون اور ترقی کے لیے اس اجلاس میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان ہوا تھا۔ لیکن آج تیس سال گزرنے کے بعد ہر اجلاس میں علاقائی تعاون بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ باہمی تجارت کے فروغ کی اہمیت کا ذکر ہوتا ہے۔ آپس میں اعتماد اور یک جہتی کی فضا پیدا کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں سارک ممالک کے درمیان اگر معاشی اور مالیاتی تعاون پیدا ہو جائے تو تمام ممالک کے عوام کو کتنا فائدہ ہو گا اس موضوع پر ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بنک اور انفرادی معاشی ماہرین نے بے انتہا تحقیق کی ہے اور اپنے اپنے نتائج کی بنیاد پر تمام حکومتوں پر یہ واضح کیا ہے کہ باہمی تعاون اور تجارت کے نتیجے میں معاشی ترقی میں کتنا اضافہ ہو گا۔ غربت میں کتنی کمی آئے گی لوگوں کا معیار زندگی کتنا بدل جائے گا۔ اور پورے خطے کا نقشہ بدل جائے گا لیکن صورت حال یہ ہے کہ بھارت کھلم کھلا کراچی اور بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے جاسوس بلوچستان سے پکڑے جا رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے دوسری طرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کا راستہ بند ہے۔ دونوں طرف سیکڑوں کنٹینر سامان سے لدے کھڑے ہیں ہزاروں مسافر اذیت کی حالت میں ہیں تو سارک ممالک کی دوسری تصویر یہ ہے۔
جنوبی ایشیا دنیا کا اہم خطبہ ہے جہاں دنیا کی 21 فی صد آبادی رہتی ہے۔ عالمی معیشت میں اس کا حصہ 9 فی صد ہے۔ افرادی قوت، زرعی زمین، معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے دنیا میں تجارتی اور مواصلاتی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے۔ پچھلی صدی کے نصف آخر میں عالمی معیشت میں علاقائی تعاون، علاقائی گروپنگ اور آزادانہ تجارت کے نظریات بہت مقبول ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں بے شمار علاقائی بلاک یا علاقائی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ مرکزی خیال یہ تھا کہ آپس کے اختلافات اور جھگڑے ختم کر کے معاشی، مالیاتی اور تجارتی تعاون میں اضافہ کیا جائے، یورپی یونین اس نظریے کے تحت قائم ہوا شمالی امریکا، جنوبی امریکا، براعظم افریقا، مشرقی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں علاقائی بنیاد پر مختلف تنظیموں کی تشکیل ہوئی۔ دنیا کے مختلف ممالک کی معاشی ترقی میں ان تنظیموں کا اہم کردار ہے مثلاً یورپی یونین کے ممالک کے درمیان باہمی تجارت ان ممالک کی کل تجارت کا 60 فی صد ہے جس سے ان ممالک کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان (ASEAN) جس میں ملیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آپس کی تجارت کل تجارت کا 25 فی صد ہے۔ جنوبی امریکا کے ممالک کی تنظیم کا آپس میں تجارت ان کی کل تجارت کا15 فی صد ہے جب کہ سارک ممالک کی آپس میں تجارت ان کی کل تجارت کا صرف 5 فی صد ہے۔ دوسرے الفاظ میں گزشتہ30 سال میں ان ممالک کا آپس میں کسی قسم کا تعاون نہیں ہے۔
اس کی بنیادی وجہ بھارت کا دوسرے ممالک کے ساتھ بالادستی اور عدم تعاون کا رویہ ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان باہمی تجارت کے بے شمار مواقع ہیں۔ لیکن اس نے طرح طرح کی قانونی، دفتری اور رسمی رکاوٹیں کھڑی کر کے آپس کی تجارت کو ختم کر دیا ہے۔ انڈیا کے اندر موجود بے شمار غیر جانبدار ماہرین معیشت اپنی حکومت کو ہٹ دھرمی اور بالادستی کا رویہ بدلنے پر زور دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کے حکمران کب اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہیں۔ خود بھارتی عوام کی حالت بدلنے کا دارومدار حکمرانوں کے رویے پر ہے۔