13137یدرآباد(نمائندہ جسارت) ڈی آئی جی خادم حسین رند نے کہاہے کہ سی این جی سلنڈر استعمال کرنے والی ٹرانسپورٹ میں پانچ سال میں 55حادثات میں اب تک250قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ٹرانسپورٹ مالکان سے پولیس ودیگر اداروں کے لوگ اس وقت بھتا وصول کرتے ہیں جب وہ قواعدوضوابط سے بچنا چاہتے ہیں۔ سی این جی ٹرانسپورٹ کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی مہم کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہاکہ 25 مئی 2013ء کو گجرات میں ایک اسکول وین میں دھماکے سے آگ لگنے کے نتیجے میں 16بچے اور ایک استاد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس حادثے کو بنیاد بناکر سوچنا چاہیے کہ حادثے کا شکار ہونے والے بچے ہمارے بھی ہوسکتے ہیں۔ سی این جی سلنڈر کو نصب کرنے کے طریقہ کار، اس میں استعمال ہونے والے میٹریل کو سلنڈر کا حصہ سمجھنا چاہیے، یہ خود کار بم ہیں، جن سے حادثے ہوتے ہیں۔ گجرات میں جس وین میں حادثہ ہوا تھا اس کے پانچ میں سے تین دروازے کھلتے ہی نہیں تھے۔ صرف ڈرائیور کی طرف کا دروازہ کھلتا تھا اور بچوں کی طرف کا ددروازہ باہر سے ہی کھلتا تھا جو اس نے حادثے کے وقت کھولنے کی جرأت نہیں کی۔ اگر پولیس والے پیسے نہ لیں، آر ٹی او اور اسکول انتظامیہ اپنی ذمے داری پوری کرے تو ایسے حادثات نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم گاڑیوں کی فٹنس کی چیکنگ کے لیے ہر طرح تعاون سے کریں گے۔ اس موقع پر سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ذوالفقار سیوفائی نے کہا کہ اوگرا سے تصدیق شدہ دو کمپنیوں کو سی این جی گاڑیوں کی رعایتی نرخوں پر جانچ پڑتال کرکے فٹنس اسٹیکر لگانے کی ذمے داری انتظامیہ کے تعاون سے دی جارہی ہے۔ اس کے لیے دو ماہ کا وقت دیا جائے۔ اس دوران جو گاڑی فٹنس نہیں کرائے گی، اس کیخلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ 72 فیصد گیس پیدا کرتا ہے، آئین کے مطابق یہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا کوئی جواز نہیں جبکہ خیبر پختونخوا آٹھ فیصد گیس پیدا کرتا ہے اور اس کی کھپت 5.6 فیصد ہے مگر وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہے۔ سندھ میں زیادتی کرکے اسے 32 فیصد جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس دینا پڑرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے انفرا اسٹرکچر چارجز ختم کرنے کے باوجود وصولی کی جارہی ہے۔ سندھ حکومت حقوق کا تحفظ کرے۔