ٹائیگر فورس، شوگر مافیا اور قرضہ کمیشن

451

یہ بات کسی اپوزیشن لیڈر، کسی سیاستدان، ٹاک شوز میں بیٹھے کسی تجزیہ کار یا کسی دو ٹکے کے اخبار نویس نے نہیں کی بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کررہی بس اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں، فنڈز جاری کیے جارہے ہیں اور نہ جانے کن لوگوں میں تقسیم ہورہے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے لیے پانچ سو ملین جاری کیے گئے اور آپس میں تقسیم کرلیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کے تمام اسپتال عام مریضوں کے لیے بند کردیے گئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وائرس متاثرین کے سوا ملک میں کوئی اور مریض باقی نہیں رہا۔ انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اپنی اہلیہ کی ٹریٹمنٹ کے لیے ملک کا سب سے بڑا اسپتال کھلوانا پڑا۔ تو یہ ہے حکومت کی کارکردگی جس پر ہم کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے اب تو چیف جسٹس صاحب نے سوموٹو نوٹس بھی لے لیا ہے۔ البتہ یہ جانتے ہیں کہ وہ وزیراعظم عمران خان بہت فکر مند ہیں وہ اس وبا کا مقابلہ ایمان کی طاقت اور نوجوانوں کی فورس سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو ’’ٹائیگر فورس‘‘ کے بینر تلے منظم کررہے ہیں۔ یہ ٹائیگر فورس کیا کرے گی ابھی کچھ طے نہیں ہے لیکن نوجوانوں کی رجسٹریشن کا کام زور شور سے جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک لاکھوں نوجوان اپنے نام رجسٹر کرواچکے ہیں۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بہت سے نوجوان اس امید پر ٹائیگر فورس میں شامل ہورہے ہیں کہ شاید یہی ان کے روزگار کا ذریعہ بن جائے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ تنخواہ نہ سہی انہیں اعزازیہ تو ملے گا ہی۔ اس طرح گزارے کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ کورونا وائرس خدانخواستہ مستقل رہنے والی وبا نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ جلد ختم ہوجائے گی۔ پھر ٹائیگر فورس کیا کرے گی۔ فی الحال تو یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ ٹائیگر فورس کورونا وائرس کی روک تھام میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر اس کے ذریعے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا مقصود ہے تو یہ کام بلدیاتی کونسلوں اور محلہ کمیٹیوں کے ذریعے زیادہ احسن طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے نیا سیاپا ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام بھٹو کے زمانے میں فیڈرل سیکورٹی فورس کا بھیانک کردار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ بھٹو نے یہ فورس اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بنائی تھی اور وہ یہ کام بڑی بے دردی سے کرتی رہی۔ راقم الحروف لیاقت باغ راولپنڈی میں متحدہ اپوزیشن کے اس جلسے میں موجود تھا جسے ایف ایس ایف کے جوانوں نے براہ راست فائرنگ کرکے لہو میں ڈبو دیا تھا۔ عمران خان کا مزاج بھی بھٹو سے ملتا جلتا ہے۔ وہ بھی بھٹو کی طرح اپنے سیاسی حریفوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے اور انہیں ہر قیمت پر کچلنا چاہتے ہیں۔ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد اگر ٹائیگر فورس نے بھی غنڈا فورس کی صورت اختیار کرلی تو کیا ہوگا؟ یہ سوال ابھی سے لوگوں کے لبوں پر مچل رہا ہے اور اندیشہ ہائے دور و دراز جنم لے رہے ہیں۔
کورونا وائرس نے فی الحال اپوزیشن جماعتوں کو خاموش رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ حکومت کا ساتھ دیں اور اسے اپنا تعاون پیش کریں۔ جماعت اسلامی کے سوا کسی اور سیاسی جماعت میں خدمت خلق کا شعبہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف ان کے دامن عوام کی خدمت کے شعور سے خالی ہیں۔ یہ انتخابات کے زمانے میں صرف عوام کے ووٹ لینے کا گُر جانتی ہیں اس کے بعد انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ صرف جماعت اسلامی ہی وہ سیاسی جماعت ہے جسے انتخابات میں عوام ووٹ دیں یا نہ دیں وہ ان کی خدمت کا چلن نہیں چھوڑتی اور ہر موسم میں اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ اب کورونا وائرس کی وبا آئی ہے تو جماعت کی الخدمت فائونڈیشن کے ہزاروں کارکن پورے ملک میں دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ ضرورت مندوں کو راشن اور ادویات بھی فراہم کررہے ہیں اور اسپتالوں میں مصروف عمل طبی عملے کی ضرورت بھی پوری کررہے ہیں، جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو چُپ لگی ہے، اس کے کھرب پتی قائدین عوام کے لیے اپنی جیب بھی ڈھیلی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کورونا وائرس نے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی رسہ کشی کو بھی لاک ڈائون کردیا ہے لیکن اس سکوت نے عمران خان کے سیماب صفت مزاج کو بے چین کردیا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر موجودہ حالات میں اپوزیشن کا گریبان چاک نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم اپنے گریبان پر تو ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ چناںچہ انہوں نے چینی اسکینڈل سے پردہ اُٹھا کر اپنے ہی لوگوں کو ناراض کرلیا ہے۔ ان کے کئی وزیر اس کی زد میں آئے ہیں لیکن زیادہ چرچا جہانگیر خان ترین کا ہورہا ہے جو وزیراعظم تھے نہ مشیر تھے لیکن اس کے باوجود بہت کچھ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین نہ ہوتے تو وفاق اور کم از کم پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم نہ ہوپاتی، نہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو مطلوبہ اکثریت حاصل تھی، نہ وہ پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ یہ جہانگیر ترین کی محنت کا ثمر ہے کہ تحریک انصاف وفاق میں بھی حکومت کررہی ہے اور پنجاب میں بھی ڈنکا بجا رہی ہے، یہ جہانگیر ترین کی سیاست کا کمال ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی عناصر کو عمران خان کے پرچم تلے یکجا کردیا۔ کہتے ہیں کہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے لیکن دو سال ہورہے ہیں اس کی نوبت نہیں آئی۔ اگرچہ افواہیں تو بہت اُڑتی رہتی ہیں لیکن سیاسی جوتشیوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بڑا اپ سیٹ نہ ہوا تو عمران حکومت جیسے تیسے اپنی مدت پوری کر ہی لے گی۔ لیکن یہ اَپ سیٹ کیا کم ہے کہ عمران خان نے جہانگیر ترین کو ناراض کرلیا ہے۔ ترین بزنس مین ہیں اور بزنس مین ہر کام فائدے کے لیے کرتا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے لیے اپنا پیسا اس لیے پانی کی طرح نہیں بہایا تھا کہ عمران خان برسراقتدار آئیں گے و انہیں شکنجے میں کس لیں گے۔ چینی سے انہوں نے جو پیسا کمایا ہے اس سے تو ان کا ابھی نقصان بھی پورا نہیں ہوا۔ نفع تو دور کی بات ہے۔ ترین اپنی آئی پر آگئے تو سارے سیاسی جوتشی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور عمران حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی کیوں کہ یہ تاش کے پتے جہانگیر ترین ہی نے اکٹھے کیے تھے۔
کہا جارہا ہے کہ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے قرضہ کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ اس قدر تہلکہ خیز ہوگی کہ شوگر اسکینڈل اس میں دب جائے گا اور لوگ اربوں کھربوں ڈکارنے والوں پر لعنت ملامت کرنے لگیں گے، پھر یہ مطالبہ بھی شدت سے اُٹھایا جائے گا کہ قومی دولت لوٹنے والوں سے جلد از جلد وصولی کی جائے۔ ظاہر ہے کہ لوٹی گئی اس دولت کے مقابلے میں شوگر مافیا کی کمائی تو آٹے میں نمک کے برابر تصور ہوگی اور لوگ اسے بھول بھال کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جائیںگے۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اپنے محسن جہانگیر ترین کے ساتھ لڑائی ایفورڈ نہیں کرسکتے، انہیں بالآخر ترین کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔ شیخ رشید نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ ترین اور خان کے درمیان دوری زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی۔ دیکھیے
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا